حضرت عمر ؓ نے عمال کا تقرر فرمایا اور ایک ایک سے عہد لیا۔ ’’ تم میں سے کوئی ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا ‘ چھنا ہوا آٹا نہ کھائے گا ‘ باریک لباس نہ پہنے گا‘ اپنے دروازوں پر دربان نہ بٹھائے گا ‘ حاجت مندوں کے لیے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے گا۔‘‘ عمر فاروقؓ امور سلطنت کی مشقت میںجکڑے ایک بار کہیں جا رہے تھے معاً آواز آئی: ’’ اے عمر ؓ! کیا یہ معاہدے تمہیں اﷲ کے حضور نجات سے ہم کنار کردیں گے؟ تمہیں خبر ہو کہ تمہارا عامل عیاض بن غنم باریک لباس زیب تن کرتا اور دروازے پر پہرے دار رکھتا ہے ۔‘‘ وہیں سے پلٹے اور محمد بن مسلم ؓ سے کہا ۔ ’’ جائو عیاض بن غنم جس حال میں ہو پکڑ لائو ۔‘‘ محمد بن مسلم ؓ پہنچے تو دیکھا عیاض ؓ نے دروازے پر دربان بٹھا رکھا ہے ۔ باریک لباس پہن رکھا ہے۔ امیر المومنین ؓکی خدمت میں چلنے کو کہا تو کہنے لگے …’’ اجازت ہو تو قبا پہن لوں۔‘‘ محمد بن مسلم ؓ نے انکارکر دیا۔ ’’ اسی حال میں عمر ؓ کے پاس پہنچو۔‘‘ امیر المومنین حضرت عمر ؓ نے دیکھا تو حکم دیا قمیض اتار دو ‘ قمیض اتار دی تو ایک کرتہ ایک عصا اور بکریوں کا ریوڑ منگوا کر حکم دیا۔ ’’ عیاض جائو جا کر بکریاں چرائو۔‘‘ عیاض متذبذب ہوئے اور کہا’’ امیر المومنین اس سے تو بہتر موت ہے۔‘‘ فرمایا ۔’’ گھبرائو نہیں ۔‘‘ تمہارے باپ کا نام غنم اسی لیے رکھا گیا تھا کہ وہ بکریاں چراتا تھا۔‘‘ تاریخ کا مسافر ایک منظر اور بھی دیکھتا اور ٹھٹھک جاتا ہے۔امیر المومنین عمر ؓ نے حضرت نعمان بن عدیؓ کو میسان کا عامل بنا کر روانہ کیا۔ وہ اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے ساتھ جانے سے معذرت کر لی ‘جب میسان پہنچے توبیوی کی یاد نے تڑپا دیا چنانچہ اہلیہ کے نام عربی اشعارمیں ایک خط لکھ بھیجا جس کا مفہوم یہ تھا : ’’ میری طرف سے اس پیکر حسن تک کوئی پیغام پہنچا دے کہ اس کا شوہر میسان میں خم لنڈھا رہا ہے۔ جب میں چاہتا ہوں دیہاتی میرے لیے گیت گاتے ہیں اور ستار ہر طرح سر بجاتا ہے ۔ اگر تم میری ہم نشیں ہوتی تو بڑے پیالے سے پلاتی نہ کہ چھوٹے ٹوٹے پیالے سے۔ شاید امیرالمومنین کو ہماری مصاحبت ناگوار ہو۔‘‘ حضرت عمر ؓ کو اس خط و کتابت کا علم ہوا تو آپ نے نعمان بن عدیؓ کو لکھ بھیجا: ’’ میں نے تمہارا آخری شعر پڑھا ہے اصل میں مجھے اس طرح کی مصاحبت پسند نہیں میسان سے لوٹ آئو۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہیں معزول کر دیا ۔ وہ میسان سے آئے اور عرض کیا۔’’ امیر المومنین خدا کی قسم ! یہ سب کچھ نہ تھا محض چند اشعار میری زبان پر جاری ہو گئے تھے ورنہ میں نے کبھی شراب نہیں پی ۔‘‘ فرمایا ۔’’ ہاں میرا بھی یہی خیال ہے لیکن اب تم کبھی میرے عامل نہیںہو سکتے۔‘‘ ابو موسیٰ اشعری ؓ کے منشی نے حضرت عمر ؓ کے نام ایک خط لکھا ۔ خط حضرت عمر ؓ تک پہنچا تو ’’ من ابی موسیٰ ‘‘ کی بجائے خلاف قاعدہ ’’من ابو موسیٰ ‘‘ لکھ کرفوراً ابو موسیٰ ؓ کو خط لکھا۔ ’’ جس وقت میرا خط پہنچے میر منشی کو بلا کر ایک کوڑا مارو اور منصب سے علیحدہ کر دو ۔‘‘ حضرت علی ؓ نے ایک مرتبہ اپنے ایک ساتھی سے پوچھا۔ ’’ میں تمہیں اپنا اور سیدہ فاطمہ ؓ کا ایک واقعہ سنائوں ۔‘‘ عرض کیا امیر المومنین ضرور سنائیے ۔ فرمایا۔ ’’ سرکا ر دوجہاں ﷺ کی بیٹی سیدہ فاطمہ الزہرہؓ اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں ۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھ میں گٹے پڑ گئے ۔ مشکیزے میں پانی بھر کر لاتیں ان کے شانوں پر مشک کی رسی کے نشان پڑ گئے ‘ سارے گھر میں خود جھاڑو دیتیں کہ کپڑے میلے ہوجاتے ‘ کھانا پکاتیں ‘ کپڑے دھوتیں بچوں کی دیکھ بھال کرتیں‘ میری خدمت بجا لاتیں ‘ ایک مرتبہ رسول اﷲﷺ کی خدمت میں چند غلام اور باندیاں پیش کی گئیں ۔ میںنے سیدہ ؓ سے کہا تم جا کر ایک خدمت گار مانگ لائو ‘ وہ گئیں لیکن مجمع دیکھ کر شرما گئیں اور پلٹ آئیں ۔‘‘ اگلے روز اﷲ کے رسول ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے کل آنے کا سبب پوچھا ۔ وہ شرم سے چپ رہیں میںنے ساری مشقت کا حال کہہ سنایا۔ لیکن فاطمہؓ نے عرض کیا: ’’ اے اﷲ کے رسول ﷺ میرے اور علی ؓ کے پاس ایک ہی بستر ہے اور وہ بھی مینڈھے کی ایک کھال کا ‘ جسے رات بچھا کر سوتے اورصبح گھاس اور دانے ڈال کر اونٹ کوکھلاتے ہیں ۔‘‘ فرمایا بیٹی صبر کر ‘ اﷲ کے نبی موسیٰ ؑ اور ان کی بیوی کے پاس دس برس تک ایک ہی بچھونا تھا اور وہ بھی حضرت موسیٰؑ کا چوغا ‘ بیٹی تقویٰ اختیار کرتی رہی۔‘‘ ادھر ہمارے ملک کی کچھ بیگمات ہیں کہ جن کے آگے پیچھے غلاموں کے جلوس ہیں ‘جو’’آزادی ‘‘ چاہتی ہیں ‘جن کے نصیب میں کبھی آزمائش کی گھڑی نہیں آئی ‘ جن کو مشقت کی ہوا نہ لگی ۔ کس شان بے نیازی کے ساتھ اپنا تعلق ان عفت مآب ‘ مینارہ نور ‘ سراپا اسلام خواتین سے جوڑتی ہیں اور کس تجاہل عارفانہ سے اپنا تعلق قرون اولیٰ کے مسلمانوں سے جوڑتی ہیں ۔ یہ آزمائش کی اس گھڑی میں پلٹ آئیں کہ ان کی عاقبت کی خیر اسی میں ہے ۔ کاش ! کوئی یہ چند حروف ان کو پڑھا دے کہ اﷲ کے رسول ﷺ ایک مرتبہ کھڑے ہو گئے اور پکارنے لگے۔ اے اولاد عبدا لمطلب …! اے عباسؓ…! اے صفیہ رسول اﷲ کی پھوپھی…! اے فاطمہ محمد ﷺ کی بیٹی…! تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا لو کیونکہ اﷲ کی پکڑ سے میں تمہیں بچانے کا اختیار نہیں رکھتا ۔ ہاں البتہ میرے مال سے جو تم چاہو مانگ سکتے ہو۔‘‘ کہاں سے آئیں وہ عفت مآب مائیں ‘ کہاں سے آئے وہ دور ‘کس کو پکاروں ‘ کس سے کہوں ؟