لوگوں اور ماہرین معاشیات کے تحفظات ڈراور خدشات درست ثابت ہوئے ‘آئی ایم ایف نے ڈومور کا مطالبہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک کو تعمیراتی سرگرمیوں پر اقدامات واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔ ایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے وزیر اعظم کی سستے گھر اسکیم کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔آئی ایم ایف کا موقف ہے کہ جو سب سڈی دی جا رہی ہے ‘وہ ختم کی جائے‘ دوسری جانب ورلڈ بینک وزیر اعظم کی سستے گھر اسکیم کو سپورٹ کر رہا ہے۔نہیں لگتا کہ وزیر اعظم یہ دبائو قبول کرینگے کیونکہ وزیر اعظم کی ساکھ ان سستے گھروں سے بنی ہے اور بنے گی۔ حکومت کا غریبوں کیلئے یہی ایک کام ہے جو اسے مقبول بنائے گا ۔گو کہ ہیلتھ کارڈ اور 12000 ہزار روپے جو غریبوں کیلئے دیے گئے وہ بھی ایک انقلابی کام تھا لیکن سستے اسکیم ایسا منصوبہ ہے جوتحریک انصاف کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہے اور یہی پرا جیکٹ اسے کامیاب بھی کرا سکتا ہے آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ ڈائیریکٹ ٹیکس کی مد میں 529 ارب روپے وصول کئے جائیں۔ 50 ارب کی ایکسائز اور58 ارب کی کسٹمز ڈیوٹی وصول کی جائے۔ کل ملا کر اگلے بجٹ میں 1100 ارب روپے کے ٹیکس اکٹھے کرنے کا کہا گیا ہے۔حکومت نے ان سب شرائط پر عمل کرنے کی یقین دہانی بھی کرادی ہے،یہ حقیقت ہے کہ غیر ملکی قرضوں کے سہارے کسی بھی ملک کی معیشت نہ تو مضبوط ہو سکتی ہے ‘عوام خوشحال ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔ اسی تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو پاکستان نے 40 ماہ کی مختصر مدت میں ریکارڈ غیر ملکی قرضے حاصل کئے لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کے ترجمانوں، وزیر خزانہ اور مالیاتی مشیروں کی طرف سے ایسے ایسے خوش کن بیانات اور دعوے تسلسل سے آ رہے ہیں کہ جیسے اس وقت ملک میں ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہے اور عوام حکومت کی ’’مثالی کارکردگی‘‘ کی وجہ سے ان کے ’’ہی گْن گا‘‘ رہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ ہماری پالیسیوں کی وجہ سے ’’کسانوں کی آمدن‘‘ میں 73 فیصد اضافہ ہوا اور انہیں 1400 ارب روپے کی اضافی آمدنی ملی ہے۔ یاد رہے کہ اگر واقعی ایسی صورتحال ہوتی تو ملک میں ہر طرف کسانوں کی احتجاجی ریلیاں نہ ہوتیں۔ اسی طرح وزیراعظم فرماتے ہیں: ٹیکسٹائل سیکٹر کے منافع میں 40 سے 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے ہم ان سے کہیں گے کہ وہ ورکروں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کریں ان کا یہ بھی کہنا تھا: ہمارے کارپوریٹ سیکٹر میں بوم آیا ہوا ہے جبکہ کنسٹرکشن انڈسٹری اور اس سے منسلک 30 صنعتیں ترقی کر رہی ہے ۔ملک میں لاکھوں گھر بن رہے ہیں۔ عوام نے گھروں کی تعمیر کے لیے بنکوں سے 290 ارب روپے کے قرضے مانگے تھے ‘اب تک انہیں 20 ارب روپے کے قرضے جاری ہو چکے ہیں۔ مہنگائی کے بارے میں تو وہ اکثر فرماتے ہیں اس خطے میں سب سے کم مہنگائی پاکستان میں ہے حالانکہ عوام ریکارڈ توڑ مہنگائی کی وجہ بے حد پریشان ہیں۔ برطانیہ کے معروف جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ ہے کہ دنیا میں مہنگائی کی بلند ترین سطح کے لحاظ سے پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جبکہ حکومت پاکستان کا اپنا ’’ادارہ شماریات‘‘ ہر ہفتے مہنگائی کے بارے اعداد و شمار جاری کرتا رہتا ہے۔ وزیر اعظم بڑے فخریہ انداز میں فرماتے ہیں کہ بڑی بڑی کمپنیوں نے ریکارڈ منافع کمایا ہے۔ وفاقی وزیر حماد اظہرکہتے ہیں: مہنگائی بڑھنے سے تاجروں اور صنعتکاروں کو فائدہ ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کے بارے میں حکومت کے ہر وزیر، مشیر اور ترجمان کی اپنی اپنی منطق ہے۔ اشیائے ضروریہ، ادویات اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہوں یا بجلی اور گیس کے بڑھتے ہوئے ریٹس، حکومت مہنگائی کی شدت کو ماننے پر تیار ہی نہیں۔ حکومت کے ترجمان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ منی بجٹ میں 350 ارب روپے کے لگنے والے ٹیکسوں سے عام آدمی پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ دوسری طرف وزیر اعظم سمیت ان کی پوری ٹیم ٹیکس وصولی 3700 ارب روپے سے بڑھ کر 6000 ارب روپے ہونے پر ’’پھولے نہیں سما رہی‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے ٹیکس وصولی میں ریکارڈ اضافہ کیا لیکن اس سے عوام کو کیا ریلیف ملا؟ آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے :کہ آئندہ جو بجٹ ہو گا ‘اس میں ترقیاتی پرو گرام کیلئے 569 ارب روپے اور دفاع کیلئے1586ارب روپے رکھے جائیں۔ وزیر اعظم خود کہ چکے ہیں آئی ایم ایف کے پاس جانا قومی سلامتی پر کمپرو مائز کرنا ہو تا ہے۔ ماہر ین معاشیات کے مطابق بنیادی بات یہ ہے کہ کوئی بھی ہماری کنپٹی پر بندوق رکھ کر آئی ایم ایف کے پاس لیکر نہیں جاتا کیونکہ ہماری پالیسی میں خسارے ہیں۔ پالیسی ٹھیک نہیں ہوتی ہماری ایکسپورٹ بڑھ نہیں رہی، امپورٹ بڑھتی جا رہی ہے جس سے 15 ارب ڈالر کا خسارہ ہو چکا ہے اب ہم جائیں تو کدھر جائیں، اسی لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت مضبوط سے مضبوط ہو رہی ہے اور اوورسیز پاکستانیوں سے 30 ارب ڈالر اور برآمدات سے31 ارب ڈالر حاصل ہوئے‘ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھے ہیں۔ ساتھ میں حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس کے دور میں پاکستان نے ریکارڈ بیرونی قرضہ بھی لیا ہے اور آئی ایم ایف کے مطالبے پر انوکھا منی بجٹ پاس کیا اور اسٹیٹ بنک کے بارے میں قانون سازی کی جس پر عوام سمیت اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے بہت سے تحفظات ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے 40 ماہ کے دور حکومت میں شرح نمو میں بے پناہ اضافہ ہونے کے باوجود بھی عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیںملابلکہ انہیں مہنگائی اور بیروزگاری کے سمندر میں دھکیل دیا گیا ہے۔دوسری طرف روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔گندم‘ چینی کی ریکارڈ قیمت پر فروخت اور اربوں روپے سے کپاس کی درآمد کون سی زرعی ترقی ہے؟ ملک میں پٹرول‘ ڈیزل اور بجلی کی ریکارڈ قیمتیں اور کھادوں کا بحران کدھر کی زرعی ترقی ہے؟ مہنگائی اور بیروزگاری کا سامنا کرنے والے عوام نے تو ایسی ’’مثالی ترقی اور خوشحالی‘‘ کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھاجبکہ ہمارے وزیراعظم جب بھی مہنگائی کی مثال دیتے ہیں‘ ترقی یافتہ ممالک کی ہی دیتے ہیں لیکن وہ ان ممالک کی اور ہماری فی کس آمدنی کا بتانا نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں۔ویسے تو پی ٹی آئی والے معیشت کی تباہی سمیت کرپشن کے ہر الزامات سابقہ حکومتوں پر لگاتے ہیں‘ لیکن عوام ان سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے خود اپنے 40 ماہ کے دور حکومت میں بیرونی قرضے حاصل کرنے‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ہر شرط ماننے کے سوا کیا ہی کیا ہے؟ کیا حکومت نے گردشی قرضوں اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے حقیقتاً کچھ کیا ہے؟ فیول ایڈجسٹمنٹ‘ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ سمیت کئی قسم کے ٹیکس لئے جا رہے ہیں‘ جو بڑھتے بڑھتے بجلی کی اصل قیمت کے تقریباً برابر پہنچ چکے ہیں‘ لیکن کسی کو اس کی پروا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایل این جی نہ لانے کی وجہ سے ہمارے پاور ہائوسز مہنگے ڈیزل پر چل رہے ہیں۔ ادھر بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی ’’نجکاری کا غلغلہ‘‘ بھی ہے۔ ہمارے پالیسی ساز نہ جانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے مسائل ہی بڑھیں گے اور کمپنی کا الگ الگ ٹیرف عوام پر مزید ستم ڈھا دے گا۔