میں کوئی تعزیت نامہ لکھنے نہیں بیٹھا۔ اگر یہ تعزیت نامہ ہے بھی تو کسی فرد کا نہیں‘ گزری ہوئی تہذیبی قدروں کا نوحہ کہہ لیجیے ۔وہ بھی کیا زمانہ تھا جب مجھ جیسوں نے ادب کی دنیا میں قدم رکھا تھا وہ ویسے بھی وقت کے کروٹ لینے کا سمے تھا۔ مگر ادبی طور پر تو ایک طوفان برپا تھا۔ لاہور بالخصوص ایک نئی ادبی تحریک کا مرکز تھا۔ افتخارجالب اور ان کے ساتھیوں کا طوطی بولتا تھا۔ ایک لحاظ سے جیلانی کامران بھی ‘ انیس ناگی‘ زاہد ڈار ‘ تبسم کشمیری ‘ گوہر نوشاہی ‘ عباس اطہر‘ ذوالفقار احمد ایک نسل تھی جو اپنے سے پہلے والوں کو چیلنج کر رہی تھی۔ یہ نظم کے شہ سوار تھے اور کہتے تھے میرا جی اور ن م راشد بھی پرانے ہو چکے۔ بلا شبہ انہوں نے ادب میں نئی جہتیں تلاش کی تھیں۔ جہاں نظم میں افتخار جالب کی ’ماخذ‘ کا چرچا تھا وہاں افسانے میں انور سجاد کی’’استعارے‘‘ زیر بحث تھی۔ جانے آج انور سجاد کے انتقال پر مجھے کیوں یہ خیال آیا کہ استعارے کی موت ہو چکی ہے۔ عسکری صاحب نے ہمیں بتا رکھا ہے کہ استعارے کا خوف کیا چیز ہوتا ہے۔ تو کیا ہمارے تخلیقی ذہن نے اس خوف سے چھٹکارا پا لیا ہے۔ اس معنوں میں کہ اس سے جان چھڑائی ہے۔ بلا شبہ انورسجاد کوجدید افسانے کا امام کہا جاتا ہے۔ سارا جدید افسانہ اسی کے بطن سے پیدا ہوا۔ اسے سکہ بند حلقوں نے چاہے تسلیم کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر اس نے ادب میں ایک دھوم مچا دی تھی۔ یہ ادب کا جدید ترین گروہ بڑے بڑے جغادری اور جید ادیبوں کو چیلنج کرتا تھا اور ادب پرکھنے کے کئی نئے اسلوب وضع کر رہا تھا۔ ہرکوئی ان کی زد میں تھا اورکانپتا ہانپتا اس کا سامنا کرتا تھا۔ انہوں نے غزل کی تو بالکل چھٹی کرا دی تھی‘ کچھ رحم آیا تو ظفر اقبال کی تجرباتی شاعری کو تسلیم کر لیا۔ اس وقت غالباً آٹھ یا دس غزل گوئوں کا ایک مجموعہ شائع کیا گیا۔ بالکل بدلے ہوئے لہجے کی شاعری اگر غزل کے معنی عورتوں سے باتیں کرنا ہے تو بھلا یہ بھی کوئی عورتوں سے باتیں کرنے کا ڈھنگ ہوا مجھے یاد ہے اس مجموعے میں افتخار جالب نے اس میں مراتب اختر‘ ریاض مجید اور ایسے چند شاعروں کو شامل کیا تھا۔ افتخارجالب دراصل ان کا رنگ لیڈر تھا اوربڑا ہی زرخیز ذہن رکھتا تھا ۔پورا برصغیر ادب کے نئے افق کی تلاش میں لاہور پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ ایسی مارا ماری کر رکھی تھی ‘انہوں نے کہ لگتا تھا کسی اورکا چراغ نہیں جلے گا۔ افتخار جالب نے انڈیا کے پرچے شب خون میں ایک مضمون لکھا کہ تخلیق ارتکاب قتل ہے اور انیس ناگی نے ادب کو ہذیان قرار دیا۔ بھئی عجیب لوگ تھے اور عجیب زمانہ تھا۔ میں آج بھی اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے اس تحریک سے بہت کچھ سیکھا چاہے ان دنوں کھلے بندوںاس کی مخالفت ہی کیوں نہ کی ہو۔ حلقہ ارباب ذوق میں مری پہلی پہچان مرا وہ مضمون بنا جس میں نے شہر ادب میں ایک نووارد کے ذہنی الجھائو کو سوالات کی شکل میں بیان کیا تھا۔ تخلیق ارتکاب قتل پر میں نے فقرہ لگایاتھا کہ اب تو ادب لکھنے پر دفعہ 302لگ سکتی ہے۔ اعجاز بٹالوی چونکہ وکیل بھی تھے وہ مری حمایت میں اس دن ایسا بولے کہ میں نے اپنے لئے رستہ منتخب کر لیا۔ نیشنل سنٹر میں ایک سیمینار تھا جدید شاعری پر جہاں سہیل احمد خاں‘ سعادت سعید اور میں نے الگ الگ کچھ ایسے موقف اختیار کئے کہ انتظار حسین نے پورا کالم باندھ دیا کہ ایک نئی نسل پیدا ہو گئی ہے جسے اردو کے جدید ترین ادیبوں کی کن پٹیوں پر بھی سفید بال نظر آ گئے ہیں۔ ان لوگوں نے یونیورسٹی میں نئے لوگ کے نام سے ایک تنظیم بنا ڈالی تھی۔ نوجوان جوق درجوق کھینچے چلے آتے تھے۔ ینگ پیپلز فرنٹ کے نام سے شہر میں ایک الگ تنظیم تھی جس نے گویا حلقہ ارباب ذوق کو اپنا اسیر کر لیا تھا۔ اپنے ساتھیوں میں شاید میں اکیلا تھا جس نے نہ حلقہ چھوڑا تھانہ ان کی مخالفت۔ البتہ یونیورسٹی میں مرے علاوہ جلیل عالی بڑی توانائی سے اس محاذ پر ڈٹا ہوا تھا۔ میں اس تذکرے کو مختصر کرتا ہوں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ وہ ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ اور یہ لوگ اس ہنگامہ خیزی کی جان تھے ۔مری اس بات میں کوئی تضادنہیں کہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھامگر ہمیشہ ان کی مخالفت بھی کی۔ اس کا تذکرہ زیادہ کروں گاتو بہت سے واقعات آ جائیں گے شاید اس سے تعلی کا پہلو بھی نکل آئے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اس فضا میں انور سجاد پہلا آدمی تھا جس نے افسانے کی دنیا میں اس نئے تخلیقی ذہن کا بیج بویا۔ جن لوگوں نے اسے نہ مانا انہوں نے تو اس جدید شاعری کو بھی نہ مانا تھا۔ مگر اس کے اثرات دورتک اترتے چلے گئے۔ حال یہ ہو گیا تھا کہ مشاعرے کی شاعری تو مذاق بن کر رہ گئی تھی جنہوں نے اسے نہ مانا اگلے مرحلے پر اسے تسلیم کر لیا۔ انور سجاد کے بعد ایک افسانہ نویس کا چرچا ہوا جو ان دنوں خالدہ اصغر کے نام سے لکھتی تھیں‘ بعد میں خالدہ حسین کے نام سے معروف ہوئیں اس کی مارایسی دور رس تھی کہ میں نے صرف دو بار انتظار حسین سوچ میں ڈوبے دیکھا ہے۔ ایک بار 65ء کی جنگ میں جب عبدالقادر حسن کے کالموں کا چرچا ہوا اور انتظار حسین اس موقع کی مناسبت سے ویسا نہ لکھ سکے کہ وہ بزم کے آدمی تھے نہ کہ رزم کے۔ تو ایک بار انہیں چند برس بعد یہ کہتے سنا کہ بھئی دو دن کی بات تھی۔ اب گویا ہمارے ہی کالم چل رہے ہیں یہ ایک کالم نگار کی معاصرانہ چشمک تھی۔ دوسری بار خالدہ اصغر کے بارے میں کہ کہاں گئی وہ خالدہ اصغر اب گویا ہماری ہی روش عام ہے۔ یہ ایک افسانہ نویس کا خوف تھا۔ میں نے دونوں بار انتظار حسین کے رویے میں ایک بڑے تخلیقی ذہن کے مقابل آنے کا خوف ایک بڑے ادیب اور لکھاری کے ہاں دیکھا تھا۔ مگر انتظار حسین نے انورسجاد کو کبھی اپنا حریف بھی نہ سمجھا تھا۔ شاید ان کا خیال تھا کہ ان کی تو روش ہی الگ ہے۔ وہ روش عام ہو گئی توہم کیا کوئی بھی باقی نہ بچے گا۔ اس نسل کی تخلیقی بغاوت کی قدر و قیمت مجھے اس لئے بھی ہے کہ اسی ساٹھ کی دہائی کے آخری دنوں میں یورپ بالخصوص فرانس کے کیمپوں میں بھی ایک تحریک چلی تھی جس نے سب جمے جمائے اورسجے سجائے معیارات کو توڑ پھوڑ ڈالا تھا۔ موٹے موٹے نام گنوا کرکالم کوبھاری نہیں کرنا چاہتا میں سوچتا تھا کہ ہمارے ہاں ایسی دھماچوکڑی اس طلبہ تحریک کے بطن سے کیوں نہ پھوٹی۔ آج پتہ چلا کہ یہ تو سامنے کی بات تھی۔ ہمارے ادیب نے بہت قوت سے ردعمل ظاہر کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یورپ میں اٹھنے والی تحریکوں کا حصہ بننے کی کوشش کرتا رہتا۔ دراصل اس نسل کو شاید راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ یہ معاشرے کی بڑی ستم ظریفی ہے۔ میں نے انورسجاد کو کراچی میں کلفٹن کے ایک شاپنگ مال کے پاس دیکھا جہاں اس کے ادارے نے ان کو ٹھہرا رکھا تھا ان کے سپرد کوئی سکرپٹ کی جانچ پڑتال کا معاملہ تھا یا کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ تیزی سے میری طرف آئے اور کراچی میں ملتے رہنے کا وعدہ کر کے چلے گئے ۔یہ ایک ایسی نوکری تھی جس نے ایک بے پناہ ادیب کو محدود کر دیا تھا۔ ان دنوں افتخار جالب بھی کراچی میں تھے۔ انہوں نے وہاں بھی محفل جما لی تھی۔ تاہم مجھے یاد ہے کہ ایک بار انڈیا سے غالباً شہر یار آئے ہوئے تھے۔ایک جگہ بیس پچیس لوگوں کی نشست بھی۔ افتخار جالب کو تعارف کی ذمہ داری سونپی گئی۔میں سب سے آخر میں بیٹھا ہوا تھا۔ کہنے لگے لاہور سے دو لکھنے والے کراچی آئے تھے۔ ایک کو صحافت کھا گئی (یہ میری طرف اشارہ تھا) اور دوسرے کوبلغم اور الرجی یہ ان کا اپنی طرف اشارہ تھا۔ انہیں دمے کی شکایت رہتی تھی۔ عجیب بات ہے کہ آج انور سجاد کے حوالے سے میں افتخار جالب کو زیادہ یاد کر رہاہوں۔ دونوں کے والد شاید طب کے پیشے سے منسلک تھے۔ افتخار کے والد کا ملتان روڈ پر بھلہ سٹاپ پر کلینک تھا اور انورسجاد کے والد کا چونا منڈی میں۔ دونوں نے مسیحائی کی بڑی کوشش کی مگر استعارے ہی کی نہیں‘ تخلیقی ذہن کی موت ہو چکی تھی میں اس کا اعلان نہیں کرنا چاہتا۔ کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس تخلیقی نسل کے بعد ہمارے تخلیقی ذہن نے کوئی بڑا معرکہ نہیں مارا۔ اورتخلیقی ذہن کی موت توبڑی بات ہے اس میں اضمحلال بھی آ جائے تو معاشرہ کو مردہ ہوجاتا ہے دیکھیں اس موضوع پر میں کیا اوٹ پٹانگ لکھ رہا ہوں۔ یہی تو اس عہد کا نوحہ ہے۔