وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سالانہ بجٹ 2019-20ء کے لئے تجاویز پر نظرثانی کی گئی ہے۔ بجٹ میں 1400ارب روپے کا اضافی ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا۔ معاشی استحکام‘ درآمدات میں کمی ، برآمدات میں اضافہ اور بجٹ خسارے میں کمی کو ترجیحات قرار دیا گیا۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے مطابق وفاقی بجٹ 11جون کو پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 55.5ملین بینک اکائونٹ ہولڈر ہیں مگر چند ہزار افراد ٹیکس گزار ہیں۔ اس طرح پاکستان میں سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمشن میں ایک لاکھ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے صرف 300کمپنیاں خود کو منافع میں ظاہر کرتی ہیں۔ کسی ملک کا معاشی نظام دانشمندوں کے ہاتھ میں نہ ہو تو ملک قلیل المدت پالیسیوں کا یرغمال بن جاتا ہے ۔ہر چیز قلیل المدتی نظر سے تشکیل پانے لگتی ہے۔ اس کا نقصان قوم کی اجتماعی ترقی پر سرمایہ کاری رک جانے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ نظام طبقات میں تقسیم ہو جاتا ہے اور کچھ عرصہ بعد بالائی طبقات پورے نظام پر قابض ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت اور آمریت دونوں قسم کی حکومتیں رہیں ۔معاشی حالات خراب ہونے کا سب نے واویلہ کیا مگر جس قدر معاشی خرابیوں کا شور بلند آہنگ تھا حکومتوں کی طرف سے اصلاع کی کوششیں اس قدر توانا دکھائی نہیں دیں۔ عشروں پہلے ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ ہم چاہتے تھے کہ آئی ایم ایف ہمارا بجٹ خسارہ ایک بار درست کرنے میں مدد دے پھر ہم اپنی محنت اور حکمت عملی سے معاشی معاملات کو سنبھال لیں گے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قوموں نے کبھی عمارتوں کی وجہ سے ترقی نہیں کی بلکہ انفرادی محنت کو اجتماعی سرمائے میں ڈھال کر ترقی اور عزت کمائی۔ پاکستان کو ترقی کے لئے توانائی کے وسائل اور جدید زرعی و صنعتی ٹیکنالوجی درکار تھی۔ ان ضروریات کے لئے ہم اگر عالمی بنک سے قرض لیتے تو یہ قرض آسانی سے واپس کیا جا سکتا تھا مگر ہم آئی ایم ایف سے بار بار مشکل شرائط پر قرض لیتے رہے تاکہ رقوم میں خورد برد کا سلسلہ جاری رہے۔ ماضی کے تمام برے فیصلوں اور بدانتظامی نے یکایک قوم کو گرفت میں لے لیاہے۔ سٹاک ایکسچینج سنبھل رہی ہے نہ روپے کی قدر کا معاملہ تسلی بخش ہے۔ افراط زر اور مہنگائی میں ناقابل برداشت اضافہ ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں دس ماہ کی حکومت کے پاس راستے بہت محدود رہ جاتے ہیں جن کے ذریعے وہ معاشی بگاڑ کو ٹھیک کر سکے۔ موجودہ حکومت نے اپنی اکثر پالیسیوں کوٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے والے مفروضوں کی بنیاد پر تیار کیا۔ خود وزیر اعظم عمران خان کا خیال رہا ہے کہ پاکستان کے لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں مگر وہ بدعنوان سرکاری اہلکاروں کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں آنے سے گریزاں ہیں۔ اگرچہ یہ پوری سچائی نہیں مگر اس بات میں کچھ سچ شامل ہے تاہم اس مفروضے میں اعداد و شمار کی پڑتال کرنے کی زحمت نہیں کی جا رہی۔ جیسا کہ معاون خصوصی اطلاعات نے 55.5ملین اکائونٹ ہولڈرزکا بتایا۔ آج کل غریب سے غریب افراد بھی کسی نہ کسی وجہ سے بینکوں میں اکائونٹ کھلوانے پر مجبور ہیں۔ نجی و سرکاری ادارے تنخواہوں کی ادائیگی بینک اکائونٹس سے کرتے ہیں۔ چھوٹے دکانداروں کو ادائیگیاں بنک کے ذریعے کرنا ہوتی ہیں۔ بچوں کی سکول فیس‘ گھر یا گاڑی کے لئے قرضہ اور بے شمار وجوہات ہیں جو شہریوں کوبنک اکائونٹ کھولنے پر مجبور کرتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ساڑھے پانچ کروڑاکائونٹ ہولڈرز افراد میں سے ایسے کتنے ہیں جن کے اکائونٹ میں ایک لاکھ روپیہ ہر ماہ آتا رہتا ہے۔ یہاں بنک اکائونٹس پر بھروسہ کر کے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ سٹیٹ بنک اور ایف آئی اے کی موجودگی میں لوگ آرام سے جعلی اکائونٹ کھلواتے ہیں اور کروڑوں ڈالر بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں۔ بلا شبہ پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں لیکن دیکھنا ہو گا کہ ریاست ایسے لوگوں سے ٹیکس کیوں نہیں لے سکی۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران لاہور میں لیسکو کی بل ریکوری سو فیصد ہو چکی ہے۔ یہ وہی لاہور ہے جہاں ماضی قریب تک ہزاروں لوگ بجلی کا بل بھرنے کو آمادہ نہ تھے ۔ اکثر سیاستدان اپنے گھر اور ڈیرے پر بجلی اور گیس چوری کی کوشش کرتے رہے۔ یہ سلسلہ اب بھی کئی علاقوں میں مقامی اہلکاروں کے ساتھ مل کر جاری ہے۔ بجلی و گیس چوری روک کر اور سو فیصد صارفین سے بل وصول کر کے ایک اچھی بنیاد فراہم کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ٹیکس نیٹ پھیلانے کی بات کرتے وقت اس طرح کے دعوے کئے جاتے ہیں کہ شہری خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ٹیکس کی شرح کم رکھی جائے تو یہ خوف ختم ہو سکتا ہے۔ ٹیکس اہداف میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ آئی ایم ایف کی 6ارب ڈالر قرض کے ساتھ جڑی شرط ہے۔ اس شرط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اگلے سال ٹیکس وصولیوں میں 500ارب اضافی جمع کرے گا۔ یہ 500ارب روپے نئے ٹیکس گزاروں سے بڑی آسانی کے ساتھ حاصل ہو سکتے ہیں۔ٹیکس نیٹ نہ بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ٹیکس اہلکاروں کی بدعنوانی اور رویہ ہے۔ یہ لوگ ٹیکس گزاروں کو ڈرا دھمکا کر اس مقام پر لے آتے ہیں جہاں وہ ریاستی نظام سے مدد کی بجائے ان اہلکاروں سے تعاون حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکومت کی حالیہ کوششوں کا محور ٹیکس اہداف رہے ہیں۔ نظرثانی کی تجاویز میں ٹیکس اہلکاروں کے خلاف شکایات کے ازالے کا نظام موثر بنانا بھی شامل کیا جانا ضروری ہے ورنہ آئندہ برس پھر بجٹ کی تیاری میں یہی مشکلات کھڑی ہوں گی۔