ایک طویل عرصے سے نئے سال کے حوالے سے نیو ائیر ریزولوشن کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، یعنی وہ عہد یا کمٹمنٹس جو نئے سال میں کرنے مقصود ہوتے ہیں۔نیوائیر ریزولوشن اور ان کے فالو اپ کے حوالے سے بہت کچھ مواد انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ کرنے والے اپنے پورے سال کی منصوبہ بندی کرتے اور پھر ماہانہ، سہ ماہی چیک اپ کے ذریعے ان پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہیں۔ ہمارے جیسوں کی بھی خیر کمی نہیں جو ہر سال وزن کم کرنے کی منصوبہ بندی سوچتے اور پھر اگلے سا ل پہلے سے پانچ سال کلو مزید وزن گھٹانے کی سوچ میں غلطاں نظرآتے ہیں۔ رمضان ریزولوشن نسبتاً نئی اصطلاح ہے اور زیادہ کامیاب بھی۔ ایک مہینہ میں ہدف مقرر کر کے اسے حاصل کرنا نسبتاً آسان ہے اور پھرپاکستان جیسے ملک میں رمضان کے دوران ماحول بھی سازگار ملتا ہے۔ اگر کسی نے نماز پنجگانہ پڑھنے کی عادت ڈالنی ہے تو ہر جگہ، دفتر، گھر، محلے میں ایسے بے شمار مل جاتے ہیں جویہ اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ مل کر سست شخص بھی اپنا ہدف حاصل کر لیتا ہے۔آج کے کالم میں مختلف جگہوں سے کشید کردہ ایسے ریزولوشن اور اس حوالے سے ٹپس شیئر کروں گا۔ رمضان ہمیشہ سے عبادات میں اضافے ، گناہوںکی بخشش اور نیکیاں کمانے کا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر نمازوں میں کوتاہی کرنے والے لوگ بھی ماہ رمضان میں باقاعدگی شروع کر دیتے ہیں، تلاوت قرآن، تراویح وغیرہ کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ سب بہت اچھا ہے، مگر رمضان انفرادی عبادات کے ساتھ خلوت کا مہینہ بھی ہے۔ اس میں کچھ وقت اپنے لئے ضرور نکالنا چاہیے۔ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے حوالے سے سوچنا چاہیے۔اپنی شخصیت، معمولات کا تجزیہ ، اپنی خوبیوں، کمزوریوں کا جائزہ ۔ سودوزیاں کا احتساب۔ عام دنوں میں زندگی بہت تیزرفتار گزرتی ہے، چند لمحے رک کر سوچنے کا وقت نہیں ملتا۔ رمضان میں شیڈول بدل جانے سے اگر کوشش کی جائے تو کچھ وقت تخلیہ کے لئے میسر ہوجاتا ہے۔مرد حضرات کے لئے تو آسانی ہے کہ مسجد میں نماز سے کچھ دیر پہلے چلے گئے یا پھر بعد میں تھوڑی دیر الگ سائیڈ پر بیٹھ گئے۔ یہ مہینہ تو انتیس، تیس دنوں کے بعد ختم ہوجائے گا، مگر خلوت کے ان قیمتی لمحوں کو اپنی مکمل زندگی کی سکریننگ کے لئے استعمال کریں۔ دیکھیں، سوچیں، سمجھیں کہ ہماری زندگی کامقصد کیا ہے؟ ہم کسی بڑے مقصد، بڑے خواب کے بغیرجانوروں کی سی زندگی گزار رہے ہیں یا ہمارے پاس کچھ ایسا کرنے کو ہے، جو طمانیت، آسودگی بخشے اور رب کریم کی خوشنودی کا باعث بنے۔ رمضان ریوزولوشن کی ابتدا اسی ایک چھوٹے سے کام سے کریں۔ اپنے لئے چند منٹ ، مہینے بھر میں چند گھنٹے ضرور نکالیں، جس میں خود اپنا تجزیہ کریں،یہ دیکھیں کہ ہماری زندگی میں ایسا کچھ ہے جو ہمارے خالق کو پسند آئے اور روز آخرت ہماری بخشش کا ساماں بن سکے۔ اگر نہیں تو اپنے آپ کو بدلیں، اپنے شیڈول کو بدلیں، اپنی زندگی کے پیٹرن کو تبدیل کر ڈالیں۔ دوسرے لفظوں میں لانگ ٹرم تبدیلی کی بنیاد ڈالیں۔ رمضان ریزولوشن کا دوسرا حصہ شارٹ ٹرم یعنی مختصر المدت اہداف کا ہے۔ اپنے لئے چھوٹے چھوٹے ہدف بنائیں، ایسے جو اسی مہینے میں مکمل ہو سکیں۔ اس برکتوں والے، مقد س مہینے کے لمحات کا بھرپور استعمال۔ اس کے لئے مختلف طریقے، مختلف حکمت عملیاں ہیں، اپنے اپنے مزاج، طبع کے مطابق انہیں ٹرائی کریں۔ کچھ لوگ ان دنوں میں واٹس ایپ گروپ وغیرہ بنا کر کمبائنڈ درس قرآن اور تفسیر قرآن شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے طور پر ایسا کرنا چاہیں تب بھی ٹھیک ہے۔ ہر دوصورتوں میں اپنے اہداف میں ترجیحی طور پر قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنا شامل رکھیں۔ ایک نسخہ جو پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں، دوبارہ عرض کر دیتا ہوں کہ کچھ دیر تلاوت کے بعد آپ صرف ترجمہ قرآن پڑھنا شرو ع کر دیں۔ صرف اردو پڑھتے جائیں، تیزی سے پڑھا جائے گا۔ آدھے پونے گھنٹے میں پورا سپارہ پڑھا جائے گا۔ کوشش کی جائے تو چند دنوں میں کم از کم ایک بار ترجمے کے ساتھ قرآن پاک پڑھ سکتے ہیں۔اس عظیم کتاب کا ہمارے اوپر اتنا حق تو ہے کہ اسے اچھے طریقے سے سمجھ کر پڑھ سکیں۔ جب صرف ترجمہ قرآن پڑھ لیں گے تو آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ اس عظیم کتاب میں ایسا بہت کچھ ہے، جسے غور سے پڑھنا، سمجھنا چاہیے۔ تب قرآن فہمی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ قرآن پاک کی کسی تفسیر کو پڑھنا شروع کر دیں، آپ کے ذہنوں میں موجود سوالات کے جوابات ملتے جائیں گے۔ اس چکر میں نہ پڑھیں کہ کون سی کتاب، کس کا ترجمہ، کس کی تفسیر۔ بھائی جو جی چاہے پڑھ ڈالو، مگر پڑھو ضرور۔ قرآن پاک کے کئی ترجمے دستیاب ہیں، نیٹ پر بے شمار مفت مواد مل جاتا ہے۔ سید مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن بہت مشہور ہے، اسے پڑھ لیں۔ ذاتی طور پر مجھے ڈاکٹر طاہرالقادری کا ترجمہ عرفان القرآن اچھا لگا۔ آپ اپنی طبع کے مطابق کسی کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔اس رمضان میں مگر یہ ہدف حاصل کر لیں۔ رمضان ریوزلوشن کا ایک حصہ ایکسٹرنل یعنی خارجی معاملات سے ہے۔ ہمارے آقا حضور پاک ﷺ دنیا کے ہر انسان سے زیادہ سخی اور فیاض تھے، کہا جاتا ہے کہ رمضان میں ان کی سخاوت عروج پر ہوتی تھی۔رمضان کا مہینہ ہاتھ کھولنے اور دل بڑا کرنے کا ہے۔ اپنی ضرورتوں میں سے کچھ کمی کر کے دوسروں کے لئے ایثار کریں۔ یہ سب سے بڑی نیکی ہے۔ صوفی برکت علی لدھیانوی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ عبادات کا کچھ معلوم نہیں ، قبول ہوں نہ ہوں، بے ریاخدمت خلق واحد چیز ہے جس کے قبول ہونے کا یقین ہے، اس لئے اسے کبھی نہ چھوڑو۔ ہم میں سے بہت سے صرف اس وجہ سے زیادہ خرچ نہیں کر پاتے کہ انہیں لگتا ہے سخاوت کرنے کے لئے لاکھ پتی ہونا ضروری ہے۔ ہرگز نہیں، آپ اپنی کم آمدنی میں سے بھی تھوڑاسا اگر ایثار کر دیں گے تو اس کا بے پناہ اجر ملے گا۔ بے شمار طریقے ہیں،انٹرنیٹ پر ایسے کئی ٹپس مل جاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں بیشتر سٹورز راشن کے پیک بنا کر دیتے ہیں، ڈیڑھ دو ہزار میں ایک مناسب سا راشن کا پیک مل جاتا ہے ، آٹا، گھی، چینی، دالیں، کھجور ، بیسن وغیرہ۔ اپنے گھر کام کرنے والی مائی، آس پاس میں واقع کو ئی نادار گھرانہ، محلے کا چوکیدار، دکانوں کے باہر پیرانہ سالی میں ڈیوٹی دینے والے گارڈز …غرض بہت سے ایسے لوگ مل سکتے ہیں جن کی زندگی میں اس ایک پیک سے کچھ آسانی پیدا ہوجائے ۔ قریبی رشتے داروں، ہمسائوں ، جاننے والوں میں کئی ایسے سفید پوش گھرانے ہوں گے جو ویسے مدد یاعطیہ قبول نہیں کرتے۔ ہمارے ایک عزیز نے اس حوالے سے سادا سا اصول بنایا ہوا تھا۔ وہ رمضان، عیدین وغیرہ کے حوالے سے کچھ ایسے انداز میں اپنے ان عزیزوںکی مدد کرتا کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ کسی کے گھر روح افزا شربت کی دو بوتلیں بھجوا دیں ، یہ کہہ کر کہ مجھے کہیں سے بوتلوں کا تحفہ آیا تھا۔ کسی عزیز کے گھر دانستہ طور پرملنے چلا گیا، ساتھ پھلوں کے دو تین بڑے لفافے بنوا لئے۔ وہ پھل جو ان دنوں میں مہنگے ہوتے ہیں، عام کیا مڈل کلاس گھرانہ بھی انہیں لینے کی ہمت نہیں کر پاتا، وہ پھل اگر بطور ہدیہ دے دئیے جائیں تو ظاہر ہے بچے بالے خوشی سے کھائیں گے۔ ایک جاننے والی خاتون نے اسی مقصد کے لئے ایک فرضی سی تنظیم بنا رکھی تھی، جو صرف کاغذوں پر تھی۔ وہ ہر سال کسی ایک جاننے والے نادار فیملی کو یوپی ایس لگوا کر دیا کرتیں۔ پچیس تیس ہزار روپے میں پورا سیٹ لگ جاتا، مزے سے اس فرضی این جی او کا نام لے لیتی کہ انہیں کہیں سے فنڈ ملے ہیں تو یہ اسی کھاتے سے ہوا ہے۔ دینے، بانٹنے کے بہت سے مہذب طریقے ہیں، انہیں یوں برتیں کہ دوسروں کی عزت نفس متاثر نہ ہو اور اس کام کو اتنی خاموشی ، سلیقے سے کریں کہ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً دائیں ہاتھ کا دیا ہوا بائیں ہاتھ والے کو پتہ ہی نہ چلے۔ اگلے روز ایک دوست نے پوسٹ کی کہ میں رمضان میں سادگی اور بچت کر کے کچھ حصہ صدقات، خیرات کے لئے نکالنا چاہتا ہوں۔ انہیں یہ خیال تھاکہ کہیں یہ کنجوسی میں نہ آئے۔ نیت تو ان کی اچھی ہے، اس میں کوئی حرج بھی نہیں، مگر ہمارے ایک جاننے والے کا طریقہ مختلف ہے ۔ وہ ہر سال رمضان میں اپنا دستر خوان وسیع کردیتے ہیں، اخراجات بڑھ جاتے ہیں، مگر وہ اسے یوں بیلنس کر لیتے ہیں کہ افطار کے لئے چیزیںگھر میں تیار کی جائیں، بچوں کو شامل کر کے ایک طرح سے انٹرٹینمنٹ بھی پیدا کر دیتے ہیں اور پھر افطار پر بچوں کو احساس دلاتے ہیں کہ دیکھورمضان کی بدولت رب کریم نے کتنی رحمت فرمائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بچے سال بھر رمضان کا انتظار کر تے ہیں کہ ان دنوں میں انہیں اللہ کی رحمت واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔ انداز اپنا اپنا ، اصل بات نیت کی ہے ، اسی پر اجر کا دارومدار ہے۔ میں تو اس کے حق میں ہوں کہ آپ رمضان ریزولوشن بھی کچھ وقت صرف کر کے اس جذبے سے بنائیں کہ اللہ اس سعی، کوشش کو پسند فرمائے گا۔ عمل درآمد کرنے کی کوشش کریں ۔ جتنا کر سکیں، اچھا ہے، نہ بھی ہوا تو نیت اور کوشش کا اجر لازمی ملے گا۔