ہر شے کی قیمت کو آگ لگی ہوئی ہے تو گوشت کا کیا قصور‘ وہ کیوں پیچھے رہے‘ چنانچہ وہ بھی مہنگا ہو گیا۔ شیخ جی نے کہ ریلوے کے کریا کرم کے وزیر ہیں‘ بجا فرمایا کہ گوشت مہنگا ہونے سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ کوئی بدگمان یہ نہ سمجھے کہ شیخ جی نے اس طبقے کا یہ مذا ق اڑایا ہے،عرف عام میں جسے عوام کہا جاتا ہے، اگرچہ اشرافیہ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے انہیں یہ مذاق اڑانے کا حق ہے لیکن انہوں نے یہ حق استعمال نہیں کیا‘ صرف حق بات کہی ہے۔ ہر شے مہنگی ہو گئی‘ کوئی قیامت نہیں آئی‘ گوشت بھی مہنگا ہو گیا تو قیامت نہیں آ جائے گی۔ آج کی خبر ہے۔گیس 106روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کی سمری چلی گئی ہے۔ منظور ہو جائے گی تو بھی قیامت نہیں آئے گی۔ ٭٭٭٭٭ شیخ جی رزق حلال کے حصول پر سختی سے کاربند ہیں۔ ریلوے کے محکمہ میں حرام کی کمائی بہت چلتی ہے۔ آپ نے اس کا سدباب یوں فرمایا ہے کہ ہر مہینے خسارے والی ایک گاڑی چلا دیتے ہیں۔ اب ماشاء اللہ ریلوے کے محکمے میں اِس سرے سے لے کر اُس سرے تک گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ اتنے گھاٹے میں حرام کی کمائی کا راستہ بچا ہی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک چینل کا رپورٹر سبزی منڈی کا احوال دکھا رہا تھا۔ ایک ستر پچھتر سال کے بزرگ گوبھی خریدنے آئے‘ قیمت کا سن کر منہ اور تھیلا‘ دونوں لٹکا کے واپس چلے گئے خالی ہاتھ۔ رپورٹر نے رستہ روک کر تاثرات جاننا چاہے تو موصوف نے کچھ ناقابل اشاعت قسم کے کلمات ادا فرمائے۔ موقع پر موجود دیگر خریداروں نے ان کلمات میں حسب ذوق و حسب توفیق اضافہ کیا۔ پروگرام پروڈیوسر کو کئی جگہ آواز’’میوٹ‘‘ کرنا پڑی۔ ٭٭٭٭٭ ایک اور چینل پر کوئی صاحب اس حسن ظن کا اظہار فرما رہے تھے کہ عوام کا جینا حقیقی معنوں میں حرام ہو چکا ہے‘ حکومت کی بہت بدنامی ہو رہی ہے۔ یقینا خاں صاحب کو اس کا احساس ہو گا اور وہ ضرور اصلاح احوال کے لئے کچھ کریں گے۔ حسن ظن کی وجہ لاعلمی ہے۔ بدنامی کا سونامی حکومت کے لئے ذرا بھی پریشان کن نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا۔ اشرافیہ کی یہ حکومت عظیم مشن پر آئی ہے اور دیکھیے ‘ عظیم مشن کس تیز رفتاری سے پورا ہو رہا ہے۔ جنہیں مشن سے لگن ہوتی ہے وہ بدنامی کے سونامی سے نہیں ڈرا کرتے۔ ویسے بھی حکومت کہہ چکی ہے کہ ’’گارنٹی‘‘ اس کے ساتھ ہے۔ ایسے میں کسی ڈر سے ڈرنے کی کوئی منطق ہی نہیں ہے۔ ویسے ایک سوال اپنی جگہ ہے۔ گارنٹی اسی طرح رہے گی۔ کل کلاں رخ پھیر نہیں لے گی۔ اس کی کیا گارنٹی ہے؟ ٭٭٭٭٭ ادھر ابلاغیاتی احباب وفاقی وزیر فیصل ووڈا صاحب کے دعوے کا ’’بھوگ‘‘ اڑا رہے ہیں کہ پانچ چار ہفتوں میں خوشحالی کا سیلاب آنے والاہے۔ اتنی نوکریاں ملیں گی کہ لوگ کم پڑ جائیں گے۔نوکریاں لوگوں کو ڈھونڈتی پھریں گی۔ انہیں لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔ آج لوگ فارغ پھرتے ہیں۔ کل نوکریاں فارغ پھریں گی۔ ایک صاحب نے تو وزیر موصوف کو خالی الدماغ ہونے کا طعنہ دے دیا۔ لیکن سچی بات ہے‘ تنہا انہی کو نشانہ بنانا زیادتی ہے۔ تحریک انصاف میں کون ہے جو ایسی باتیں نہیں کرتا۔ یاد کیجیے تو ایک ہزار ایسے ہی دعوے یاد آ جائیں گے جو ایک نہیں‘ لاکھ بار کئے گئے۔ مثلاً آتے ہی 8ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائوں گا۔ پچاس لاکھ مکان بنا دوں گا‘ باہر سے دو سو ارب یا دو ہزار ارب ڈالر پہلے ہی ہفتے واپس لے آئوں گا۔ ایک کروڑ نوکریاں دوں گا۔ تین سو ساٹھ ڈیم بنا دوں گا۔ غیر ملکی قرضے نہیں لوں گا۔ ایسی نوبت آئی تو خود کشی کر لوں گا۔ وغیرہ وغیرہ لاتعداد وغیرہ ٭٭٭٭٭ پڑوس کے ایک گھر میں پریشانی آ گئی ہے۔ گھر کے ایک بزرگ پر ’’سایہ‘‘ ہو گیا ہے۔ رات کو سو نہیں پاتے‘ چیختے ہوئے اٹھ جاتے ہیں اور گلی کو دوڑتے ہیں۔ جس سے اہل محلہ کی نیند بھی خراب ہوتی ہے۔ کہتے ہیں‘ آنکھیں بند کرتا ہوں تو ڈرائونی آواز آتی ہے۔ دیکھتا ہوں تو کوئی بھی نہیں ہوتا۔ بہت ڈر لگتا ہے۔ گھر والے کسی عامل کامل کی تلاش میں ہیں۔ عامل کامل سے کیا ہو گا۔ اس ’’سائے‘‘ کو گارنٹی حاصل ہے‘ کوئی اس کی کایا پلٹ نہیں کر سکتا۔ اور یوں بھی یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ سایہ ہر ایک پر آ گیا ہے۔ اب تو اس سایہ کے زیر سایہ ہی رہنا ہو گا۔ ٭٭٭٭٭ سراج الحق نے دوسری مرتبہ امیر جماعت کا حلف اٹھا لیا۔ تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بھی گھر گھر کی اس کہانی کا ماتم کیا اور کہا کہ حکومت مہنگائی کے کوڑے برسا رہی ہے جو بدترین دہشت گردی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اصل حکومت غیر سیاسی ماسٹرز کی ہے۔مقننہ‘ عدلیہ اور انتظامیہ بے بس ہیں۔ بات ٹھیک سمجھی مگر سمجھنے میں دیر کی۔ ایک بھولا بسرا گانا یاد آیا ع بس میں کر کے‘ بے بس کر کے یعنی جو بے بس ہوتا ہے‘ وہ کسی کے بس میں ہوتا ہے۔خیر‘ مہنگائی کی صورت میں جو بھاری آفت آ پڑی ہے‘ اس سے بچنے کی بھی کوئی تدبیر ہے کہ نہیں۔ مسلم لیگ ن تو اس مصرعے کی تفسیر بنی ہوئی ہے کہ ع گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے پیپلز پارٹی‘ جے یو آئی وغیرہ کے ساتھ مل کر کوئی صدائے احتجاج ہی بلند کریں۔ فائدہ تو کچھ نہیں ہو گا کہ ’’گارنٹی‘‘ ان کے ساتھ ہے لیکن چلئے‘ حرف تسلی ہی سہی۔