پیلو مودی کے زُلفی بھٹو کو پھانسی ہوچکی تھی۔ پرانا محاورہ ہے … پھانسی گھاٹ پر گھاس نہیں اُگتی۔ گھاس کا رنگ مگر سبز ہوتا ہے۔ ضیاء الحق کا پاکستان تیزی سے سبز ہورہا تھا۔ ٹیلی ویژن سکرین سے سینما سکرین تک۔ رومانٹک، اصلاحی اور میوزیکل فلموں کی جگہ سلطان راہی کا گنڈاسہ اور ناصر ادیب کا مولا جٹ ہر سمت اپنی جگہ تیزی سے بنا رہا تھا۔ کلچر میں منافقت کی باس تیزی سے پھیل رہی تھی۔ آپ کچھ بھی کریں … آپ کیسے بھی ہوں مگر آپ کو ایک خاص نظریئے کا علم ہر وقت ہاتھوں میں اٹھائے رکھنا تھا تاکہ آپ پر ملحد، غدار یا کافر کا لیبل نہ لگ جائے۔ آپ کے خدا کے تعلق کے لیے بھی آپ کے پاس مصدقہ ثبوت ہونا چاہیے تھا۔ طالب علم سیاست میں پنجاب یونیورسٹی سے ایف سی کالج تک اور پھر ہر کالج سے ہر کالج تک لیفٹ نڈھال ہورہا تھا۔ سٹوڈنٹ پالیٹکس کا مشہور نعرہ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو … بالکل درست ثابت ہورہا تھا۔ دیواریں مسلسل گر رہی تھیں۔ لیفٹ اور رائٹ کے اس کلائمکس میں پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے پلیٹ فارم سے وجیہ شخصیت کے مالک حفیظ خان صدر کا الیکشن لڑ رہے تھے۔ برادرم حسن نثار بھی پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ سیاست کا حصہ تھے۔ حفیظ خان اور حسن نثار گہرے بلکہ بہت گہرے دوست تھے۔ مگر لیفٹ اور رائٹ سیاست کی لکیر بھی بہت گہری تھی۔حسن نثار صاحب نے حفیظ خان صاحب سے کہا کہ ’’تم اگرچہ بعض وجوہات کی بنا پر یہ الیکشن جیت جائو گے مگر ووٹ میں تمہارے مخالف جہانگیر بدر کو ہی دوں گا‘‘۔ حفیظ خان صاحب آج کل انگریزی میں کالم لکھتے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ سیاست پر … واقعات اور شخصیات پر وہ کچھ لکھتے ہیں کہ آج کے نوجوان کو سوشل میڈیا کے بخار میں یہ پتہ ہی نہیں کہ کبھی سٹوڈنٹس کے درمیان لیفٹ اور رائٹ بھی ہوتا تھا، ملکی سیاست میں بھی اور طلبہ سیاست میں بھی۔ اسی ہنگام کا تسلسل تھا اور صحافت میں بھی پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو تقسیم شدید تھی۔ ایم اے کے بعد ابھی پروفیسری میں پائوں نہیں رکھا تھا اور سب ایڈیٹری کے ساتھ میں سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا۔ رائٹ گروپ کے ایک صحافی اکرام رانا صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ وہ، ضیاء الاسلام انصاری، مسکین حجازی، مصطفی صادق، جمیل اطہر اور ایم انور بار ایٹ لاء مال روڈ کے ایک شاپنگ مال کی بیسمنٹ میں حقوں کے کش اور چائے کی پیالی پر خوب بحث مباحثہ کیا کرتے تھے۔ اکرام رانا صاحب سے درخواست کی کہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کی لائبریری سے کچھ کتابیں اور نوٹس کنسلٹ کرنے ہیں۔ آپ مسکین حجازی صاحب سے اجازت لے دیں۔ شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی کے سربراہ مسکین حجازی صاحب سے مل کر نکلا اور ایک کمرے کے سامنے رک گیا نیم پلیٹ پر لکھا ہوا تھا ’’پروفیسر وارث میر‘‘۔ جھجکتے ہوئے ، ہچکچاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوگیا۔ کچھ طالب علم پروفیسر صاحب کے سامنے والی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میری طرف متوجہ ہوئے تو ان سے سی ایس ایس میں صحافت پر بطور مضمون رہنمائی طلب کی۔ رہنمائی بھی ملی اور نصیحت بھی۔ ڈان کا اداریہ ضرور پڑھاکرو اور فلاں فلاں رائٹرز کے کالم بھی۔ کچھ اچھی کتابوں کے نام بھی بتائے۔ کچھ اچھے رائٹرز بھی جن میں Will Duran کا نام بھی تھا۔ عباس اطہر صاحب سے میں اس طرح کبھی نہیں ملا جس طرح وارث میر صاحب سے یا برادرم حسن نثار صاحب سے مکالمے اور اکتساب کا موقع ملا مگر اردو صحافت میں نذیر ناجی صاحب اور نصرت جاوید کے علاوہ جس شخصیت نے صحافتی تحریروں میں بے تحاشا متاثر کیا وہ سید عباس اطہرہیں۔ جب شاہ جی نے کراچی کے روزنامہ انجام سے 64ء میں اپنے کیریئر کی ابتدا کی تو ان کے چیف نیوز ایڈیٹر باکمال شوکت صدیقی تھے۔ وہی شوکت صدیقی جو خدا کی بستی اور جانگلوس جیسی افسانوی کہانیوں کے خالق تھے۔ شاہ جی پر ہمارے دوست خاور نعیم ہاشمی ایک خوبصورت کالم لکھ چکے ہیں مگر نہ جانے کیوں شاہ جی کی تحریریں اور شاہ جی مسلسل یاد آرہے ہیں۔ پچھلے دنوں فاروق لغاری کے دوست خواجہ طارق رحیم سے ملاقات ہوگئی۔ ان کے مطابق جتنی سخت تحریریں فاروق لغاری اور ان کی ٹیم کے متعلق شاہ جی نے لکھیں اس پر ہم سب (فاروق لغاری اینڈ کو) بہت شکوہ کناں اور پریشان رہتے تھے۔ شاہ جی تحریر کا ایک ٹکڑا ملاحظہ کریں: ’’صدر فاروق لغاری کے بدلتے رویوں کے بارے میں ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ صدر منتخب ہونے کے بعد شروع میں وہ چودھری فاروق الٰہی تھے، پھر غلام فاروق خان بنے اور آخر میں فاروق الحق بن گئے۔ فاروق الحق بننے کے بعد اپنی مرضی سے دوبارہ فاروق الٰہی بننا بڑا مشکل ہوتا ہے‘‘۔ اردو جرنلزم آج بھی شاہ جی اور ان کی تحریروں کو مس کرتا ہے۔ ان کے اندر کا رومانٹک، آئیڈیلسٹ جیالا، تادم مرگ لڑتا رہا، سیاست اور صحافت کے عملیت پسند بتوں سے۔ شاہ جی کا انداز تحریر بہت منفرد تھا۔ رائٹرز کی یہ Breed اب کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ لفظوں سے تصویر بنانا، جملوں میں جادو نگری تعمیر کرنا، کردار تخلیق کرنا، ایسے کردر کہ آپ ان میں تاعمر کھوئے رہیں۔ یہ وصف سب رنگ ڈائجسٹ والے شکیل عادل زادہ صاحب میں جادو کی شکل سر چڑھ کر بولتا ہے۔ شکیل صاحب اور مینا کماری کی ملاقات، وہی مینا کماری جو 1970ء کی دھائی میں پردہ سیمیں کا ایک افسانوی کردار تھیں۔ ایک عجب کہانی ہے۔ یہ کہانی ایک مکمل کالم کا اصرار کرتی ہے مگر شکیل صاحب کے لیے آج صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ ان کے سب رنگ ڈائجسٹ نے اپنے تراجم، کہانیوں اور افسانوں کے ذریعے جن نسلوں کو متاثر کیا ہے شکیل صاحب کے ذکر پر آج بھی ان کی آنکھیں جگمگا اُٹھتی ہیں، چہرے کھل اُٹھتے ہیں۔ وہ سب جو جرنیل بھی ہیں، بیوروکریٹ بھی، کہانی کار بھی، کالم نگار بھی، خوانچہ فروش بھی، صنعت کار بھی اور ٹھیلے والے بھی۔ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو ایک شخص نہیں ادارہ ہوتی ہیں۔ ان میں شکیل عادل زادہ، حسن نثار صاحب ،نذیر ناجی، وارث میر اور عباس اطہر ایسی ہی شخصیات ہیں۔ ان پر بہت لکھا جانا چاہیے۔ صرف کالم ہی نہیں۔ موقع ملا تو آپ سے شیئرنگ ہوتی رہے گی۔