مجھے تو خوش ہونا چاہیے کہ جناب وزیر اعظم عمران خان نے ہفتہ وار اسلام آباد۔ لاہور کے شٹل دوروں میں سے وقت نکال کر میرے شہر‘ شاہینوں کے شہر سرگودھا کو اپنی نگاہ التفات کے قابل سمجھا۔ جناب وزیر اعظم کے 20منٹوں پر محیط دورے کا مرکزی نقطہ ڈسٹرکٹ ہسپتال سرگودھا تھا۔ عمران خان نے یہ دورہ اس شان کے ساتھ کیا کہ اخباری اطلاعات کے مطابق کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی البتہ یہ حسن اتفاق ضرور ہوا کہ جناب وزیر اعظم کی آمد سے قبل کمشنر سرگودھا ظفر اقبال شیخ ہسپتال میں بنفس نفیس موجود تھے۔ اس میں زیادہ حیرت کی بات نہیں کیونکہ تیسری دنیا میں ایسے حسین اتفاقات اکثر ہو جایا کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کے دورے کے دوران ہسپتال میں موجود ایک دو ڈاکٹروں سے میری براہ راست بات چیت ہوئی اور ایک ڈاکٹر دوست نے تو وزیر اعظم کے ہسپتال کے دورے کی ویڈیو بھی مجھے ارسال کی۔ اس ویڈیو میں جناب عمران خان ہسپتال کے اندر بھی سیاہ چشمہ لگائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کسی مریض کی عیادت کرتے ہوئے آئی کنٹیکٹ نہیں ہونے دیا۔ ایسے دوروں سے وقتی سی ہلچل تو ضرور ہوتی ہے جیسے ٹھہرے ہوئے تالاب کے پانی میں پتھر پھینکنے سے لہروں میں چند لمحوں کے لئے ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور پھر ہر شے اپنی سابقہ روش پر واپس آ جاتی ہے۔وزیر اعظم کے سامنے مریضوں کے لواحقین نے شکایات کے انبار لگا دیے۔ ڈسٹرکٹ ہسپتال سرگودھا قائم تو شاید کہیں 1960ء میں ہوا ہو گا البتہ اس کی نئی عمارت 2016ء میں مکمل ہوئی اور پرانی عمارت تقریباً متروک ہو چکی ہے‘ شاید اس میں ایک دو شعبے کام کر رہے ہیں۔ نئی پرانی عمارات میں چھ سو بیڈز ہیں۔ یہی ہسپتال سرگودھا میڈیکل کالج کا ٹیچنگ ہسپتال بھی ہے۔ وزیر اعظم نے بچشم خود ملاحظہ کیا کہ بچہ وارڈ میں ایک ایک بیڈ پر تین تین چار چار مریض بچے لیٹے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے لواحقین بھی موجود ہیں۔ گویا ہسپتال مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ہسپتال میں 150مزید ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ ہسپتال کی لفٹیں بند پڑی ہیں نومبر 2018ء میں پنجاب میڈیکل ایسوسی ایشن نے سرگودھا کے ہسپتال کا دورہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ میں لکھا کہ یہاں کم از کم 2000بیڈ کا ایک جدید ہسپتال قائم ہونا چاہیے۔ سرگودھا میں میری معلومات کے مطابق سر کی چوٹوں جیسی جان لیوا حادثاتی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کوئی ٹراما سنٹر نہیں اور نہ ہی کوئی برن یونٹ ہے اورکارڈیالوجی وارڈ بھی اس معیار کا نہیں کہ جہاں مریضوں کا آپریشن ہو سکے۔ مریض دل کے آپریشن کے لئے چناب نگر (ربوہ)فیصل آباد اور لاہور جاتے ہیں۔ جب یہ ہسپتال 1960ء کی دہائی میں قائم ہوا تھا اس وقت سرگودھا شہر کی آبادی تقریباً ایک لاکھ تھی جو آج کل دس لاکھ سے اوپر ہے جبکہ ضلع سرگودھا کی آبادی چالیس لاکھ کے قریب ہے۔ اس ہسپتال میں نہ صرف ضلع سرگودھا بلکہ میانوالی‘گجرات اور منڈی بہائوالدین تک سے مریض آتے ہیں یاد رہے کہ 1960ء کی ہی دہائی سے سرگودھا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔اہل سرگودھا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے سرپرائز دورے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں مگر اس دورے کی منفرد شان یہ تھی کہ دورے کے بعد کوئی سرکاری اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔ آہٹ پہ کان در پہ نظر دل میں اشتیاق کچھ ایسی بے خودی ہے تیرے انتظار کی ون ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے سرپرائز دوروں اور چھاپوں سے قوموں کی قسمت بدلتی ہے۔ قوموں کی معاشی‘ سیاسی سماجی اور معاشرتی زندگی میں تبدیلی کیسے آتی ہے۔ تبدیلی چھاپوں اور دوروں سے نہیں سوچ کے بدلنے سے آتی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں اورآسیب کے سائے سے آنکھیں ملانے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ بڑی بڑی انقلابی سوچ رکھنے والے جب عملی میدان میں آتے ہیں تو ان کی اپروچ وہی روایتی اورگھسی پٹی کیوں ہو جاتی ہے۔ یہاں آسیب کا سایہ ایسا ہے کہ ہر بڑے سے بڑا انقلابی بلند بانگ دعوئوں اور دلفریب وعدوں کے باوجود چند ہی دنوں میں اس مقناطیسی یا آسیبی دائرے کا اسیر ہو جاتا ہے اور اپنی انقلابی سوچ اپروچ سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ذرا سوچئے حکومت کوئی ہو مقتول اور مظلوم کے بے وسیلہ ورثاء کی تھانے میں اس وقت تک ایف آئی آر درج نہیں ہوتی جب تک وہ معصوم مقتولوں کی لاش سڑک پر رکھ کر راستے اور شاہراہیں بند نہیں کر دیتے حکومت کوئی ہو ینگ ڈاکٹروں کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں اور وہ آئوٹ ڈور چھوڑ کر سڑکوں پر سراپا احتجاج ہوتے۔ حکومت کوئی ہو احتجاج کرنے والے اساتذہ ‘ کلرکوں اورنابینائوں پر اس طرح لاٹھی چارج کیا جاتا ہے۔ قوم تو یہ آس لگائے بیٹھی تھی کہ جناب عمران خان پہلے سے تیار کردہ جدید معاشی‘ طبی اور تعلیمی پالیسی کو کھٹا کھٹ نافذ کرتے جائیں گے پولیس اور اعلیٰ انتظامی ڈھانچے میں جدید اصلاحات لے آئیں گے اور پھر نئے پاکستان کو دیکھنے دنیا امڈ پڑے گی۔ مگر خان صاحب تو اسی پرانے روایتی دائرے میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ بقول شاعر ؎ نہ تم بدلے نہ ہم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی میں کیسے اعتبار انقلاب آسمان کر لوں پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں میرے بیٹے کی پروفیسر رہی ہیں۔ بلال پروفیسر صاحبہ کی علمیت وشفقت کی اکثر تعریف کرتا رہتا ہے۔ مگر انتظامی صلاحیت علمیت سے الگ ایک وصف ہے۔ شعبہ طب و صحت سے تعلق رکھنے والے اکثر واقفان حال کا کہنا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کی آمد سے ہسپتالوں کی حالت بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہوئی ہے۔ واللہ اعلم۔ کسی صوبے کے ہسپتالوں دفتروں کالجوں سکولوں اور امن و امان کا دارو مدار اس صوبے کے منتظم اعلیٰ پرہوتا ہے۔ بیچارے عثمان بزدار صاحب کو دوش نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کب کہا تھا کہ وہ اس منصب کے اہل ہیں یہ تو خان صاحب کا حسن انتخاب ہے۔ اس لئے تو وہ پنجاب میں بھی خود دوڑے بھاگے پھرتے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا تیسری دنیا میں تبدیلی آ ہی نہیں سکتی۔ یقینا بہت بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ ہمارے آنکھوں کے سامنے سنگا پور مچھیروں کی بستی سے دنیا کا جدید ترین ملک بن گیا۔ گراں خواب چینوں کا ملک دنیا کی تیسری بڑی طاقت بن گیا۔ جنوبی ہو یا شمالی کوریا کہاں سے کہاں جا پہنچے اورہم اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ہم جمہوریت کے نام لیوا ہیں مگر ’’ون مین شو‘‘ کے نرگسیت زدہ طلسم سے باہر نہیں نکلتے۔ عمران خان کا وژن‘ میاں نواز شریف کا وژن‘ بھٹو کا وژن وغیرہ چہ منی دارد؟ وژن حکومت کا ہو تا ہے یا پارٹی کا۔ کیا چھاپوں سے تبدیلی آئے گی؟ ہرگز نہیں ذرہ سی تبدیلی بھی نہیں آئے گی۔ تبدیلی ضرور آئے گی مگر سوچ اور اپروچ کے بدلنے سے آئے گی جس کے بظاہر کوئی آثار نہیں۔