خواب ہو گا یا کوئی خواب کے جیساہو گا جو بھی ہو گا وہ مری آنکھ کا دھوکا ہو گا اتنا لکھوں گا ترے بعد ترے بارے میں آنے والوں نے تجھے پہلے ہی دیکھا ہو گا ان اشعار کے نزول کی کوئی خاص وجہ نہیں۔ یونہی بیٹھے بیٹھے موڈ رومانٹک سا ہو گیا۔ ابھی ایک ذرائع آمدو رفت میں سے ایک شے نظر پڑی جس پر خوش شکل لوگ بیٹھے تھے اور کمینٹری جاری تھی کہ لاہور کی شاہراہوں پر اب گدھا چنگ جی چلنے لگی۔ صرف پھلوں اور سبزیوں ہی کی پیوندکاری نہیں ہو رہی۔ گاڑیوں کو بھی اس عمل سے گزارہ جا رہا ہے۔ یہ کس ذہن رساکا نیا تجربہ ہے کہ چنگ چی کے آگے گدھا جوڑ دیا گیا۔ چین والے بھی دم بخود رہ جائیں گے۔ گدھا بھی اپنی جگہ خوش کہ کمہار کی بے قدری سے بچ گیا‘ مٹی ڈھونے سے بچا۔ اچھے اور پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں خوبصورت اور دلکش سواریاں اسے میسر آئی گی اور وہ ڈھینچو ڈھینچوں کرتے ہوئے ۔سڑکوں پر سرپٹ بھاگے گا۔ یہ گدھا لاہوریوں کی زندگیوں میں کچھ زیادہ شامل ہوتا جاتا ہے۔ یہ خبر تو اب پرانی ہو چکی کہ لاہور کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں اس کا گوشت کھایا گیا۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ گدھے لاہور میں ذبح ہوتے ہیں لیکن ان کی کھالیں کراچی میں مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔ آخری بار 855کھالوں کا پتہ لگایا گیا تھا ہمارے دوست مرلی چوہان نے اس پر نظم بھی لکھی تھی۔ جو حقیقت نگاری کی مثال تھی۔ ابھی علی الصبح ہمیں ایک دوست نے سچا واقعہ سنایا کہ بازار میں گدھا گاڑی میں جتے ہوئے ایک گدھے نے ایک دکان کے سامنے رکھی ہوئیں پسی ہوئی مرچیں دبڑ دبڑ کھا لیں۔ دکاندار اسے مارنے بھاگا لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے۔ ریڑھی والے نے کہا ’’جناب یہ مرچیں ہرگز نہیں تھیں کیونکہ گدھا اتنی مرچیں کھا ہی نہیں سکتا۔ یہ تو اصل میں پھک کو رنگ کیا گیا تھا جو گدھے کی مرغوب غذا ہے۔ یہ وہی بات ہوئی کہ ملاوٹ اس قدر ہے کہ زہر کھانے والا بھی بچ جاتا ہے۔ بہرحال اس ملاوٹ کا فائدہ صرف گدھے کو ہوا۔ انسان تو اس سے مارے جا رہے ہیں کہ زندگی بچانیوالی ادویات بھی اصلی نہیں ہیں۔ ملاوٹ کرنے والا معلوم نہیں کیا سوچتا ہے کہ اسے اپنی موت بھولی ہوتی ہے یا پھر کچھ اور ہے: اس زندگی کا سانحہ کتنا عجیب ہے ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن کسی کے ساتھ گدھے کو آپ زیادہ انڈر ایسٹی میٹ نہ کریں کیونکہ یہ لیبر پارٹی کا انتخابی نشان ہی نہیں عظمت کا استعارا ہے کیونکہ محنت ہی اصل عظمت ہے۔ وہ سارا دن بوجھ ڈھوتا ہے۔ اسی لئے سیاست دان اپنے عوام کو یہی کچھ سمجھتے ہیں اور بیورو کریٹ سیاستدانوں کو یہی کچھ جانتے ہیں۔ کہتے ہیں گدھے سے زیادہ اس کا بچہ خوبصورت ہوتا ہے۔ یونہی باتوں سے بات یاد آئی کہ میرا ٹینڈوں کے بارے میں لکھا کالم پڑھ کر ڈاکٹر خضر یاسین نے بتایا کہ ان کے استاد برہان احمد فاروقی ٹینڈوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ بے کردار سبزی ہے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ منٹو نے احمد ندیم قاسمی کے بارے میں لکھا کہ وہ سبزی خور ادیب ہیں۔ خیر بات شروع ہوئی تھی گدھا چنگ چی سے۔ ویسے مال برداری کے لئے گدھے کو اپ ٹوڈیٹ کر کے خچر بنایا گیا اور کہتے ہیں کہ خچر میں گھوڑے اور گدھے دونوں سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ میں نے تصدیق کے لئے لوہا لانے والے چھکڑے پر بیٹھے شخص سے پوچھا کہ یہ بات درست ہے کہ خچر اپنے دونوں آباء سے طاقتور ہوتا ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے کہا کہ ’’پھر اس نے چھکڑے یا ریڑھے کے آگے گھوڑا کیوں جوت رکھا ہے۔ خچر کیوں نہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’بائو جی خچر بہت مہنگا ہے دو لاکھ تک چلا جاتا ہے۔ گھوڑا لاکھ سے نیچے مل جاتا ہے‘‘ میں واقعتاً حیران ہوا کہ گھوڑے اور گدھے کے ملاپ سے پیدا ہونے والا خچر زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔پہاڑی علاقوں میں بھی زیادہ خچر استعمال ہوتے ہیں۔ ویسے ہم تو پیار سے بھی کسی کو گدھا کہہ دیتے ہیں مگر کہتے اس کی حماقت کی وجہ سے ہیں۔چنگ چی سے مجھے خیال آیا کہ خچر تو گاڑی اور بس کو بھی کھینچ سکتا ہے۔ ہاں گاڑی کی سپیڈ ضرور کم ہو جائے گی۔ یہ کم سپیڈ والی بات ہے مجھے فورٹ عباس جانے والی پسنجر گاڑی یاد آئی جو کہیں بھلے وقتوں میں چلا کرتی تھی۔ اس کی سپیڈ بعض اوقات اتنی کم ہوتی تھی کہ لوگ اتر کر قریب لگے ہوئے خربوزے توڑکر دوبارہ گاڑی پر سوار ہوجایا کرتے تھے۔ سپیڈ کا تعلق حالات سے ہوتا ہے۔ رش تھا تو ایک گاڑی والے نے پیدل چلتے آدمی کو لفٹ دی کہ گاڑی میں بیٹھ جائے۔ پیدل چلنے والے نے کہا ’’نہیں مجھے ذرا جلدی ہے‘‘ آپ بھی کہتے ہوں گے کہ میں کیسا کالم لکھ رہا ہوں۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں‘ اب بتائیے میں اور کیا کروں۔ گدھے پر اتنا جنرل نالج کہاں سے لائوں۔ یہی ہو سکتا ہے کہ اب سیاستدانوں پر بات شروع کر دوں۔ وہاں تو کالم کے کالم باندھے جا سکتے ہیں۔ اب بتائیے کہ کہ ایک لفظ ’’صاحبہ‘‘ جو عمران خاں نے بلاول کے ساتھ نتھی کیا تو اس نے کیا کیا ہنگامے اٹھائے۔ بلاول نے بہرحال درست کہا کہ اس لفظ سے انہیں کچھ فرق نہیں پڑا اس سے عمران خاں کا اپنا سٹیٹس کم ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بلاول کو پسند کرنے والوں نے اس لفظ کو زیادہ محسوس کیا ہے۔ کچھ نے تو جواباً بلاول کو ٹیپو سلطان ثانی بھی لکھ دیا۔ اب شیخ رشید نے بے خیالی میں فردوس عاشق اعوان کو صاحب کہا تو کسی نے محسوس نہیں کیا۔ اصل میں بات جینڈر کی ہے۔ صاحبہ تانیث کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر ہمارے ادب بعض ایسی خواتین ہیں جو اس جینڈر کی قائل ہی نہیں ہیں۔ انہیں شاعرہ کہیں تو وہ محسوس کرتی ہیں کہ خواتین شاعر کیوں نہیں؟ مذکر مونث دونوں کے لئے لفظ شاعر ہے تو پھر انہیں الگ کیوں کہا جاتا ہے وہ اپنے مردانہ رویے پر فخر کرتی ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ مردانہ انداز میں بات کرنے والی خواتین کو عورتیں اپنے حقوق کی محافظ سمجھتی ہیں۔ شیخ رشید نے ٹیکنیکل فالٹ کی بات کی اور حیرت ہے کہ شادی موصوف نے اب تک خود بھی نہیں۔ ساری باتوں کے باوجود شائستگی کا اپنا مقام ہے۔ یہ دکھ نہیں کہ وہ سمجھا نہیں مرے فن کو مخالفت کا سلیقہ نہیں تھا دشمن کو خیر ہم گدھا چنگ چی والی بات تو حتمی انجام تک پہنچاتے ہیں کہ اس سواری کو زیادہ عام نہ ہونے دیا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کل کلاں گدھا ٹو گدھا قطاریں نہ لگی ہوں۔ چالان کی صورت میں بھی مضحکہ خیز صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پھر پیٹرول کون خریدے گا۔ اس مسئلے پر آپ بھی سوچیے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: اپنا تو اصل زر سے ہی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ