ملکی اقتصادیات ہچکولے کھا ر ہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے ہم بہت پیچھے ، بلکہ نیچے ہیں۔این ایف سی ایوارڈ کے باوجود ، صوبوں اور مرکز کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔بلوچستان گورنمنٹ نے سرکاری ملازمین کو تنخوا ہوں کی ادائیگی سے بھی معذرت کرلی ہے۔معاشی حالات دگرگوں ھیں ،درددل رکھنے والا ہرپاکستانی آزردہ اورپریشان ہے - ابن خلدون نے کہا تھا کہ اگر حکمران از خود تاجر بن جائیں اور کاروبارِ سلطنت کی بجائے ،ذاتی تجارت اور اپنے نجی کاروبار کے پھیلائو میں لگ جائیں ،تو ریاست زوال اور ملکی شہری خسارے ، نقصان اور بے اعتمادی کا شکار ہوجاتے ہیں ،جس کا لازمی نتیجہ ،عوام کا حکومتی اداروں پر عدم اعتماد اور ٹیکسوں کی ادائیگی سے اِعراض کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ ابن خلدو ن نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’تاریخ ابن خلدون‘‘ کے مقدمہ کی دوسری جلد میں ،یہ بھی تحریر کیا ہے کہ جب حکمران تجارتیں کرنے اور اپنے کاروبار پھیلانے پر متوجہ ہوں گے تو حکمرانوں کی اولادیں صنعتیں بنانے اور کارخانے لگانے میں لگ جائیں گی ،جس سے مقامی آبادی اور صنعت پر منفی اثرات مرتّب ہوں گے۔ ابن خلدون کہتاہے کہ ریاستی باشندوں کی بے چینی اوربے اطمینائی کے نتیجہ میں سرکاری خزانے میں وسائل کی قلّت اور مالی خسارہ پیدا ہونا ، اور ٹیکسوں کی وصولی میں کمی ہونا شروع ہو جائے گی۔ وہ کہتاہے کہ اس صورتحال کا ریاستی معیشت اور ملکی اقتصادیات پر انتہائی منفی اثر پڑے گا، سرکاری اخراجات میں غیر ضروری اضافہ ہوگا ،جس کو پورا کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضا فہ ایک فطری امر ہے۔ ٹیکسوں میں اضافہ ہونے سے ’’تجارت‘‘ کمزور ہوگی ،تجارت میں کمزوری کساد بازاری (Slump)کا باعث بنے گی ، کساد بازاری سے آباد کاری میں خلل واقع ہوگا ،اورآباد کاری میں خلل ریاست کی کمزوری پہ مْنتہج ہوتی ہے۔ ’’ریاست ‘‘کمزور ہوتو کوئی بھی غیور اور باہمت قوم اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ نتیجتاً …ریاست کے استحکام کے لیے معیشت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے لیے لا محالہ مزید مصارف کا بوجھ عوام پر’’ مزید ٹیکسوں‘‘ کی صور ت میںپڑتا ہے ،اور مزید ٹیکسوں میں یہ اضافہ سوسائٹی اور مقامی آبادی میں حوصلہ شکنی اورمنفی تاثر پید اکرتا ، اور ریاست کی شکست وریخت کا سبب بنتا ہے۔ابن خلدون نے اسی تسلسل میں ایک اور زبر دست بات لکھی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ یہیں کہیں بیٹھ کر ’لمحۂ موجود‘‘میں یہ باتیں کہہ رہا ہو۔وہ کہتا ہے کہ جب اقتصادی دبائو بڑھتا ہے ،تو حکومت کو اپنے اخراجات میں بھی کمی کرنا پڑتی ہے ،جس کا لامحالہ اثر دفاعی اخراجات پر بھی پڑتا ہے اور ایسی صورت میں فوج کو بھی اپنے اخراجات میںکمی لانا پڑتی ہے ،اور فوج کے بجٹ میںکمی سے فوج کے کمزور ہونے کا امکان اور خدشہ پید اہوتا ہے، فوج کی کمزوری ریاست کی کمزوری کا سبب بن سکتی ہے۔ابن خلدو ن نے اربابِ اقتدار کے اْس مال ودولت کا تذکرہ بھی کیا ہے ،جس کو وہ دوسرے ملکوں میںاس خیال سے منتقل کرتے ہیںکہ بوقتِ ضرورت اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھائیں گے لیکن اقتدار کے بعد ملک سے بھاگنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے خیال میں اس کی ’’رعیّت اور اہل عصبیت‘‘اس کے سدراہ یعنی سب بڑی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔وہ مزید لکھتاہے کہ حکمرانوں اور ارباب حل وعقد ’’Elite‘‘کو اپنے اخلاق درست رکھنے چاہیئں ، اس لیے کہ جب اخلاق خراب ہوتے ہیں تو پالیسیاں بھی خراب ہوتی ہیں ،جب پالیساں خراب ہوتی ہیں تو ریاست زوال پذیر ہوتی ہے۔ ملکی اقتصادیات کے حوالے سے وہ بطور خاص فضول خرچی اور آرام طلبی سے اجتناب کی نصیحت کرتا ہے۔ بن خلدون کو ’’فلسفہ تاریخ ‘‘ کا بانی سمجھا جاتا ہے ، اس کا اصل نام عبدالرحمن بن محمدبن خلدون الحضرمی تھا ، اس کا نسب صحابی رسولﷺ حضرت وائل الحضریؓسے ملتا ہے ،حضرت عثمان ؓکے عہد خلافت میں ، جب تونس فتح ہوا ،تو فاتحین کی جماعت میں سے، وہ حضرات جنہوں نے تونس میں قیام کو پسند کیا، ان میں حضرت وائل الحضری کے پوتے خالد بن عثمان بھی شامل تھے ، انہی کی اولاد میں ،یکم رمضان 732ھ بمطابق 27مئی 1332ء ابن خلدون پیدا ہوئے۔ابن خلدون یقینا ایک ایسا صاحب نظر مورخ تھا، جس نے تہذیب وتمدن کے ارتقا ء کا بنظر غائر مطالعہ کرکے انتہائی وقیع اور شاندار ’’فلسفہ تاریخ‘‘ کی بنیاد رکھی ،اس نے تاریخ کو ایک مستقل علم کی حیثیت سے متعارف کروایا ، تاریخی تحقیق وتنقید کے اصول قائم کیے اور بطورِخاص اس نے تاریخی واقعات کو ’’عِلت ومعلْول‘‘ کے سلسلے میں مربوط کرکے ، ان کی تجزیہ کاری کی۔معروف مورخ ٹائن بی کا خیال ہے کہ علمی دنیا میں ابن خلدون اوّلین شخصیت ہیں جنہوں نے ’’تاریخ نویسی ‘‘کے معنی اور مفہوم کو تبدیل کیا اور اس کو محض حالات وواقعات کے بیان سے نکال کر، تحقیق وتفحص کی کسوٹی پر پرکھنے کی بنیاد رکھی۔ابن خلدون نے بہت سے موضوعات پر قلم اْٹھایا اور کتابیں تحریر کیں ،لیکن ’’تاریخ ابن خلدون‘‘ کوجو شہرتِ دوام میسر آئی ،وہ اْس کی کسی اور تصنیف کے حصے میں نہ آسکی۔ ابن خلدون ریاست کی اقتصادیات پربات کرتے ہوئے ، مزید لکھتے ہیں کہ جب اخراجات آمدن سے بڑھ جائیں ، تومعاشرے کے نادار طبقے تباہ ہونے لگتے ہیں ،ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں وہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکر ؓ ’’خلیفۃ الرسول‘‘ منتخب ہوئے ، تووہ ،ا س وقت تجارت کرتے تھے ، مکی دور میں حضرت بلال ؓ سمیت بہت سے غلام آپؓ نے خرید کر اللہ اور رسولﷺکی رضا کے لیے آزاد کیے اور مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے جو قطعہ اراضی نبی اکرمﷺ نے پسند فرمایا، اس کی قیمت بھی حضرت ابوبکرؓ نے اد اکی۔خلافت کامنصب سنبھالنے کے بعد ، حضرت عمرؓ نے آپ کو اپنا نجی کاروبار جاری نہ رکھنے کا مشورہ دیا ،اس لیے کہ اب تو آپ امیرالمومنین اورخلیفہ ہیں ، ہآدمی آپ ہی سے مال خریدے گا ،اور لین دین کرنا چا ہے گا۔،حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا پھر میرا گذر اوقات کس طرح ہوگا ،چنانچآپ کا روزینہ یا وظیفہ مقرر ہوا ، اس کی مقدار کتنی تھی ---؟ مختلف روایات کو ابن سعد نے یکجا کرکے ، ان کی تطبیق کرتے ہوئے ،اس کی مقدار کو ’’ دو ہزار درہم سالانہ‘‘ قرار دیا ہے ،جو بتدریج اضافے کے سبب چھ ہزار درہم سالانہ تک پہنچ گیا ، لیکن یہ سار ی رقم بوقت وصال ،آپؓ نے ، اپنی ذاتی زمین فروخت کرکے ، بیت المال میں جمع کروادی۔مزید یہ کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت ، آپ نے ایک آڈٹ ٹیم مقرر کروائی ، جس کو یہ ذمّہ داری دی کہ وہ اس امر کا جائزہ لے ، کہ منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد میرے اثاثہ جات میں کتنا اضافہ ہوا۔ حضرت عمرؓکے بطور خلیفہ، روزینے کی بھی یہی کیفیت تھی، تاآنکہ قیصر وکسریٰ کے ایوان اسلامی افواج کے ہاتھوں مْسخّر ہوئے ، مدینہ منورہ میں سونے ،چاندی کے ڈھیر لگ گئے ، عام صحابہ کرامؓ کے لیے وظائف کے اجراکا سلسلہ شروع ہوا ، حضرت عمرؓصحابہ کرامؓ کے جس اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے تھے ،ان کو سرکاری پالیسی کے مطابق جو وظیفہ جاری ہوا ،اسی شرح سے حضرت عمرؓ کو بھی روزینہ یا وظیفہ کا اجراہوا، جس سے اْن کے گھر میں بھی تھوڑی کشاد گی آئی۔