آج بھارتی ریاست آسام کے مسلمانوںکے دل دہلا دینے والے کرب ناک منظرکشی کے لئے رقمطرازہوں ۔ بھارت میں اگرچہ روزاول سے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب ان کی بستیوں،ان کی آبادیوں،ان کے گھروں اورمدرسوں کی مسماری کے باعث وہ خوف کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔کئی علاقوں میں مسلمان بے خانماں ہونے پر احتجاج کی بھی ہمت نہیں کر پا رہے ۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں گزشتہ دو سال سے مسلمانوں کے گھروں کومسمارکرنے کاظلم بلا روک ٹوک جاری ہے۔ جس کے نتیجہ میں اب تک تقریباساڑھے پانچ ہزار مسلم خاندان بے خانماں ہو چکے ہیں۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے اجین شہر اور اتراکھنڈ کے ہلداوانی شہر میں مسلم مکینوں کو اپنے مکانات خالی کرنے کے نوٹس دیے گئے ہیں۔جس کے نتیجہ میں اب تک تقریباساڑھے پانچ ہزار مسلم خاندان بے خانماں ہو چکے ہیں۔ یہ سمجھ لیں کہ کئی ریاستوں میں بھارتی مسلمانوں کوبے خانماںکرنے کے لئے ’’بلڈوزر کلچر‘‘ منظم شکل اختیار کر چکا ہے۔ آسام بھارت کا وہ صوبہ ہے، جہاں تناسب کے اعتبار سے مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آج سے 13سال قبل یعنی2011کی مردم شماری کے مطابق آسام کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 35 فی صد سے زائد ہے۔ پہلے تو انہیں بنگلہ دیشی دراندازی کا ہوّا کھڑ ا کر کے ایک عرصے تک پریشان کیا جاتا رہا۔ لیکن شہریت (این آر سی) کے نظر ثانی شدہ رجسٹر تیار ہونے کے بعد آسام میںبنگلہ دیشی مسلمانوں کی آمدجسے زعفرانی بریگیڈ نے ’’دراندازی‘‘کا نام دے رکھاہے اور اسلامی ریاست بنانے کا سنگھی پروپیگنڈا پاش پاش ہو گیا۔تاہم ریاست میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی دوبارہ بر سراقتدار آئی ہے تب سے مسلم آبادی، جس میں بیشتر بنگالی نژاد ہیں، کی زندگی تنگ کرنے کی مسلسل کو شش ہو رہی ہے۔ انہیں کسی نہ کسی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کی قدیم بستیوں جوپون صدی سے زائد عرصے سے قائم ہیںکو غیر قانونی تجاوزات کے نام پر ضابطے کی کارروائی کیے بغیر بڑی بیدردی سے بلڈوزر سے مسمار کیا جا رہا ہے۔ اب تک ہزارہامسلمان خاندانوں کے سر سے چھت کا سایہ چھینا جا چکا ہے جس کے باعث ان غریب ،بے بس اوربے کس مسلمانوں کی حالت پناہ گزینوں جیسی بن چکی ہے۔ آسام میں مسلمانوں کے آشیانوں کی بلڈوزرسے مسماری کی تازہ ترین صورتحال اس وقت پیش آئی جب گذشتہ برس 13 دسمبر2022 کو اچانک سینکڑوں پولیس اور نیم فوجی دستوں کے اہلکار نمودار ہوئے ۔مسلمان بستیوں میں خوف و دہشت پھیل گئی۔ مقامی مسلمانوں کو یہ کہہ کر دھوکے میں رکھا گیا کہ یہاںمسلمانوں کے تحفظ کے لئے پولیس کا کیمپ لگانامطلوب ومقصودہے۔ تاہم محض دودن بعدیعنی 17 دسمبر2022 کو معلوم ہو اکہ یہ پولیس فورس مسلمانوں کے بجائے مسلم بستیوں پر بلڈوزر چلانے والی سرکاری مشینری کے تحفظ کے لئے بٹھادی گئی ہے۔ چنانچہ دو دن بعد چار مسلم اکثریتی دیہاتوں کو چشم زدن میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا۔ مئی سال 2016ء میں جب آسام میں پہلی مرتبہ بی جے پی بر سر اقتدار آئی تو اس کے بعد سے صرف بنگالی نژاد مسلمانوں کو ان کی آبادیوں سے بے دخل کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ مسلمانوں کے گھروں کوبلڈوزروںسے مسمار کرنے کی سب سے پہلی کارروائی ’’قاضی رنگا نینشنل پارک ‘‘کے قریب کی گئی ،غریب اورمفلوک الحال مسلمانوں نے اس کی مزاحمت کرنے کی کوشش کی جس کے دوران پولیس نے احتجاج کرنیوالے مسلمانوں پرراست فائرنگ کر دی جس سے دو مسلمان نوجوان شہید ہوئے۔اگرچہ اس خونریزسانحے کے بعد مسلمانوں کے گھروں کی مسماری کایہ مہیب سلسلہ تھم گیا تھالیکن مئی سال2021 سے یہ ظالمانہ کارروائی اورریاستی دہشت گردی پھر شروع ہوئی اور ستمبرسال 2022 کے وسط تک بی جے پی حکومت نے کل 4449 مسلمان خاندانوں کے مکانوں کو مسمار کردیا۔مسلمانوں کو بے گھر بنانے کی یہ کارروائی پولیس کے سخت پہرے میں انجام دی جاتی ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کو طاقت کے استعمال کی کھلی چھوٹ حاصل تھی۔ ستمبرسال 2021 میں آسام کے ضلع دارنگ کے دھال پور علاقہ میں مسلمانوں کے گھروں کی انہدامی کارروائی کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت کے دوران پولیس نے گولی چلا دی تھی۔ گولی سے زخمی ایک ادھ مرے نوجوان کے جسم پر سرکاری عملہ کے ساتھ موجود ایک فوٹو گرافر کو رقص کرتے دیکھنے کا دلخراش منظر پوری دنیا نے دیکھا تھا۔اس دوران آسام کے وزیراعلی ہیمنتا بسوا کی طرف سے اعلان ہواکہ ریاستی مشینری کے سامنے کھڑے ہونے والوںکو پانی کا ایک قطرہ تک نہیں دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ آسام ہر سال زبردست سیلاب کی زد میں آتا ہے۔ خاص طور سے تبت سے بہنے والا دریا برہم پترا بڑی تباہی مچاتا ہے، اس کے نتیجے میں آبادیوں کی آبادیوں بکھر جاتی ہیں۔ سیلاب کے سبب جو جزیرے وجود میں آتے ہیں وہاں یہ لوگ منتقل ہو جاتے ہیں، جنہیں آسامی زبان میں’’چار‘‘کہا جاتا ہے۔ ان ہی چار علاقوں میں آباد ہونے والے گاؤں میں آباد مسلمانوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے۔ بھارت میںمسلمانوں کے گھروں کی بلڈوزر سے مسماری کاسلسلہ بڑھتا چلا جارہا ہے اور بی جے پی کے زیر اقتدار دیگر ریاستوں مدھیہ پردیش، اترپردیش اور اتراکھنڈ میں بھی مسلم مکنیوں کے آشیانے منہدم کیے گئے یا ان کو اپنی آبادیاں خالی کرنے کوکہاگیاہے۔ فسطائی عزائم کے خلاف سرگرم ایک تنظیم ’’جن ہشتکیپ‘ ‘‘Janhastakshep نے ایک فیکٹ فائندنگ ٹیم ان متاثرہ علاقوں میں روانہ کی تھی۔ تنظیم کے کنوینر ڈاکٹر وکاس باجپئی نے کہاکہ این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کے عزائم میں ناکامی کے بعد ریاست کی بی جے پی حکومت اپنی خفت مٹانے اور مایوسی دو ر کرنے کی غرض سے غیر قانونی تجاوزات کے نام سے مسلمانوں کو ان کے آبائی مقامات سے بے دخل کرنے کی انتقامی مہم چلا رہی ہے۔