یہ جو پرشکستہ ہے فاختہ، یہ جو زخم زخم گلاب ہے یہ ہے داستاں میرے عہد کی ،جہاں ظلمتوں کا نصاب ہے میری جان ہونٹ تو کھول تو ،کبھی اپنے حق میں بھی بول تو یہ عجیب ہے تری خامشی ہے یہ سوال ہے کہ جواب ہے موجودہ حشر سا مانیوں میں کسی کو کچھ نہیں سوجھتا۔ ایک بے حسی کی سی کیفیت ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے لوگوں میں بولنے کی ہمت نہیں رہی۔ ہمارے دوست ملک سعید بہت فکر مند تھے ، ان کا کہنا تھا کہ ڈوبتی ہوئی معیشت کی وجہ سے کیا ہوئے جا رہا ہے۔ ان کی بات صد فیصد درست ہے کہ نہ جانے لوگ کس بات کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہماری کرتوتوں کے باعث اللہ بھی متوجہ نہیں۔ آپ ایک لمحے کے لیے حالات کی غیر سنجیدگی اور بے معنویت کا اندازہ لگائیں کہ شہبازشریف فرما رہے ہیں کہ وہ مہنگائی پر جلد قابو پا لیں گے اور دوسرا یہ کہ جب بھی الیکشن ہو گا ن لیگ ہی جیتے گ۔ اس میں لا محدود گنجائش ہے۔ آپ مہنگائی پر کنٹرول کی بعد میں بات کریں۔ انتخاب کرانے سے تو آپ کی جان جاتی ہے جو بویا تھا وہ کاٹنا بھی تو آپ نے ہے: ایک خلقت ہے کہ نفرت سے بھری بیٹھی ہے ایک طوفاں ہے کہ لوگوں نے دبا رکھا ہے سب ڈرامے ہورہے ہیں۔ پتہ چلا کہ مریم نواز کے استقبال کی تیاریاں ہورہی ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ بندہ پوچھے کہ وہ کون سا کارنامہ سرانجام دے کر آ رہی ہیں۔ ایسے ہی مجھے جاوید ہاشمی یاد آ گئے کہ جب نوازشریف ان پر پارٹی کی ذمہ داری ڈال گئے تھے اور سید زادہ سب صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے جیل میں رہا اور جب یہ باغی رہا ہوا تو ن لیگ کے کرتا دھرتا نے ان کے استقبال کے لیے بھی کمیٹیاں تشکیل دی تھیں اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ بس ذرا حساب کتاب سے ہی انہیں جیل سے باہر لایا جائے۔ حاشیہ بردار اور درباری بے چارے اور کریں بھی کیا کہ ان خاندان کی آل اولاد کی بلائیں لینا پر ان پر فرض ہے اور یہ فرض کفایہ بھی نہیں۔ ایک درس کی محفل میں ملکی سیاست پر بہت ہی تشویش کا اظہار ہورہا تھا اور ہر طرف سے صرف ایک بات پر سب کو متفق پایا کہ لے دے دے کے ایک کراچی ہے جہاں لوگوں نے اپنے حق میں آواز بلند کی ہے اور جماعت اسلامی کا پیٹ فارم استعمال کیا ہے۔پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف سالہا سال کی ایک نفرت لوگوں کے دلوں میں موجود ہے اور یہ لوگ عوام کو بائی پاس کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یہی تو ان کا ماٹو ہے کہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے۔ یہ ان کی جمہوریت ہے۔ اتفاق سے میں نے حافظ نعیم الرحمن کی پوری تقریر سنی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تو اللہ کی رضا کے لیے اور لوگوں کی خدمت کے لیے باہر نکلے ہیں۔ مظلوم لوگوں کو ان کا حق دلائیں گے۔ وہ کرپشن کر کے مال بنانے نہیں آئے۔ وہ خلق خدا کو سہولت بہم پہنچانے نکلے ہیں۔ ان کے کسی ساتھی پر کو ایک بھی کرپشن وغیرہ کا الزام تک نہیں۔ اب ذرا بات فرد اور شعور کی ہو جائے کہ اس پر حمید حسین نے سیر حاصل گفتگو کی کہ فرد بہت اہم ہے بلکہ یہی اصل اکائی ہے۔ یہی کردار سازی کہ فرد کو تراش کر ہیرا بنایا جائے۔ اگر فرد فرد ہی مایوس ہو کر یادلبرداشتہ ہو کر یبٹھ جائے گا تو تبدیلی یا بہتری کیسے آئے گی۔ ہمارے ہاں افراط و تفریط ہے۔ اصل میں فرد ہی اجتماعی سطح پر جا کر اثر انداز ہوتا ہیے۔ جیسا فرد تیار کیا جائے ویسا ہی معاشرہ نصیب ہوگا لیکن عین اسی وقت اجتماع کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کرسکتے۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ افراد تو نظم کے مصرعوں کی طرح ہونے چاہئیں جو نظم کو مربوط کریں اور اس کا حصہ بنیں۔ اقبال نے کیا خوبصورت مثال دکھائی: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر بھی لازم ہے۔ فرد اگر دوسرے فرد کا خیال کرتا ہے تو یہ خوبصورت معاشرہ ہے اور خوبصورت معاشرہ فرد کے حقوق اسے دیتا ہے۔ اکیلا فرد کچھ نہیں۔مصیبت یہی ہے کہ معاشرہ اس وقت فرد فرد ہے۔ اصل میں مادہ پرستی اس قدر ہے کہ سب اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ وہ کوئی بھی ہو اپنی ذات میں قید ہے۔ بس مجھے میرے حقوق مل جائیں بلکہ دوسروں کے بھی۔ اپنی ذات کو مرکز مان کر دائرے کھینچے جا رہے ہیں۔ اگر میں ہوں تو ٹھیک وگرنہ سب کچھ جہنم میں جاتا ہے تو جائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بے عقل اپنے آپ کو ناگزر سمجھتے ہیں حالانکہ قبرستان کو ناگزیر لوگوں سے اٹے پڑے ہیں۔ رہی تکلیف وہ نعرہ پرویز مشرف نے لگایا تھا کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ بظاہر اچھا لگنے والا نعرہ ملت ا اسلامیہ اور نظریہ کے خلاف تھا۔ اسی طرح فرد کی آزادی میں لفظ آزادی تو آتا ہے مگر یہ تو فرد کو تنہا کرنے کی سازش ہے۔ یہیں سے شخصیت پرستی بھی جنم لیتی ہے: ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ اس امر میں ایک چیز جو لازم ہے وہ تواضع اور انکساری ہے۔ اپنے آپ کو مفید بنانے کی اور دوسروں کو آرام باہم پہنچانے کی ہے۔ اسی طرح اپنے آپ کو معاشرے کے ساتھ جوڑ کر اپنا فرض نبھایا جا سکتا ہے۔ لاتعلقی تو آسان ہے۔ دوسروں کے کام آنا اصل زندگی ہے۔ یہ رویہ سب سے خطرناک ہے کہ کوئی سوچ کر اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ کس نے سیکھا ہے نقش پا رکھنا۔ پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا۔ اپنے دائرہ کار میں تو انسان اثر پذیر ہو سکتا ہے اور یہی صحت مند رویہ ہے اور یہ معاملہ تشویش ناک ہے کہ جہاں کتے کھلے ہوں اور پتھر بندھے ہوئے۔ یہ بات وہی کہ نیکی کر دریا میں ڈال اور اس کے لیے دریا دل ہونا بھی تو ضروری ہے۔ حالی کا خوبصورت شعر: ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا خاکساری اپنی کام آئی بہت