ایک کتب فروش سے ملاقات ہوئی جو انگریزی میں باتیں کرنے لگا۔ اس نے کہا: ’’اگر حالات کا رخ یہی رہا تو مجھے ڈر ہے کہ مشرقی پاکستان زیادہ دیر تک آپ کے ساتھ نہ رہے۔‘‘ مجھے اس فقرے نے چونکا دیا۔ میرے چہرے کا رنگ سفید ہو گیا۔ اس نے فوراً کہا: میں جانتا ہوں کہ تمہیں اس سے دکھ پہنچا ہے اور میں نے بھی یہ الفاظ دکھ سے کہے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ لوگ اسی انداز پہ سوچ رہے ہیں۔ اچھا یہ بتائو کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو قریب لانے کے لیے کیا کچھ کیا جارہا ہے؟ ’’حکومت اس مسلے پر خاص توجہ دے رہی ہے۔ اقتصادی مساوات کے لیے مشرقی پاکستان پر زرکثیر خرچ کیا جارہا ہے۔ تہذیبی وفود کا تبادلہ ہورہا ہے۔ علمی بنیادوں پر ایک دوسرے کو قریب لانے کی سعی کی جا رہی ہے اور بہت سے میدانوں میں کام ہورہا ہے۔‘‘ ’’لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان مساعی کے خاطر خواہ نتائج کیوں برآمد نہیں ہورہے؟‘‘ میں کچھ دیر سوچتا رہا۔ دراصل میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ جو میں دے سکتا تھا‘ وہ میں دینا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے خود ہی جواب دے دیا: ’’مغربی پاکستان سے وفود کی شکل میں جتنے لوگ آتے ہیں۔ وہ اونچی سطح تک ہی رہتے ہیں‘ وہ عوام میں گھلتے ملتے نہیں۔ وہ یہاں کے مسائل سمجھنے کے لیے عام آدمی کے جذبات کے قریب نہیں آتے۔ میرا اپنا اندازہ ہے کہ موجودہ حکومت نے بہت سے اچھے کام کئے ہیں لیکن انہیں عوام کے ذریعے عوام تک نہیں پہنچایا جاتا۔ عوامی ذہن کے لوگوں کو یہاں زیادہ سے زیادہ تعداد میں آنا چاہیے۔ ہمیں اونچا آدمی اپیل نہیں کرتا۔‘‘ ٭٭٭٭٭ میں ایک بنگلہ روزنامے کے دفتر میں گیا۔ وہاں ایڈیٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا: ’’میں بھی آپ کی طرح ایک صحافی ہوں‘ لاہور سے آیا ہوں۔‘‘ ’’اچھا‘ آپ لاہور سے آئے ہیں۔ وہاں صحافت ابھی زندہ ہے؟‘‘ ’’اس سے آپ کا کیا مطلب؟‘‘ وہ صرف مسکرا دیئے۔ یہ مسکراہٹ نشتر کی طرح میرے دل میں پیوست ہوتی گئی۔ میں نے ہمت کا ثبوت دینے کے لیے کہا: ’’لاہور صحافت کا مرکز رہا ہے اور اب بھی ہے۔ وہاں سے عمدہ معیار کے روزنامے نکلتے ہیں جن کے صفحات میں قارئین کی دلچسپی کے بے شمار پہلو جمع کردیئے جاتے ہیں۔ ’’جی ہاں‘ اس لیے کہ قارئین کے سامنے اصل مسائل نہ آ سکیں اور آپ انہیں غیر ملکی جاسوسی کہانیوں میں الجھائے رکھیں۔‘‘ ’’نہیں‘ نہیں۔ لاہور کے اخبارات عوام کے مسائل کے بارے میں بے دھڑک لکھتے ہیں۔‘‘ ’’واقعی؟ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے مجھے بغور دیکھا اور درد بھرے لہجے میںکہا: ’’میرا یہ پیغام لاہور کے صحافیوں تک پہنچا دیجئے کہ وہ صحافت کے تقاضے‘ مصلحتوں پہ قربان نہ کریں۔ صحافی قوم کے ذہنی معمار ہوتے ہیں۔ قوم میں ذہنی صحت مندی پیدا کرنا ان کا کام ہے۔ وہ جرات و بے باکی سے کام لے کر حق گوئی کی روایات قائم کرتے ہیں کن کا قائم رہنا قوم کے لیے بے حد ضروری ہے۔ انہوں نے اپنا کردار ادا نہ کیا توتاریخ ان سے عبرت ناک انتقام لے گی۔‘‘ یہ دونوں اقتباس بزرگ صحافی الطاف حسن قریشی کی کتاب ’’مشرقی پاکستان‘ ٹوٹا ہوا تارا‘‘ کے ہیں۔ پڑھتے ہوئے یہ دونوں تحریری ٹکڑے مجھے آج کے دو اہم معاملات سے جڑے محسوس ہوئے۔ بلوچستان میں جو لوگ قومی سلامتی کے لیے خطرہ بتائے جاتے ہیں انہوں نے غریب اور محروم نوجوانوں کے لشکر بنا رکھے ہیں۔یہ لوگ ان نوجوانوں کو بتاتے ہیں کہ ریاست ان کے روزگار ، قدرتی وسائل اور ثقافت کی دشمن ہے ۔دوسرے علاقوں سے وفود تو خیر مدت ہوئی بلوچستان نہیں گئے جو ایک آدھ شخصیت جاتی ہے وہ سرداروں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا کر لوٹ آتی ہے ، حالیہ دنوں شاہد آفریدی گئے ،ان سے پہلے بھی لوگ گئے ،عام بلوچ سے یہ کیوں نہیں ملتے۔بلوچ شاعروں سے ان کا کلام کیوں نہیں سنا جاتا ، وہاں کے صوفیا کی درگاہوں پر حاضری کیوں نہیں ہوتی ۔ کہا جاتا ہے ناراض بلوچ گمراہ ہیں ۔ حکومتیں ان افراد کی سرکوبی کے لیے جن مقامی افراد سے تعاون کی خواہش مند ہوتی ہیں وہ سب بلوچستان کے سردار‘ نواب اور امراء ہیں۔ یہ لوگ خود غریب آبادی کا استحصال کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ معاملہ کچھ اور نظر آتا ہے۔ بلوچستان کی سرزمین پر جا کر دیکھیں تو شاید محروم طبقات اپنے استحصال کی ذمہ داری ریاست پر عائد کرتے ہیں۔ ریاست جب بھی ان سے رابطہ کرتی ہے سرداروں کے توسط سے۔ عام آدمی تک عام آدمی بن کر پہنچا نہیں گیا۔ 1964ء میں لاہور کی صحافت کو آپ آج پاکستان کی صحافت تصور کرلیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر کیا کچھ نہیں کہا جارہا۔ اگر بات نہیں ہورہی تو ملک میں محروم طبقات کی سیاسی و معاشی آزادیوں کی بات نہیں ہورہی۔ تبصرہ نگار اور تجزیہ کاروں کی ہر قسم نظر آئے گی لیکن سماجی تبدیلیوں سے واقف ،گہری نگاہ رکھنے والے لوگ سکرین کی ضرورت پوری نہیں کرتے۔حکومت‘ پارلیمنٹ اور اختیار میں عام آدمی شریک نہیں۔ میڈیا کی مباحث میں عام آدمی دکھائی نہیں دیتا جو ایک آدھ درد دل رکھنے والا صحافی ایسی باتی کرتا ہے اسے تنہا کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان ایک نہیں کئی سانحات سے گزر چکا، ہر سانحے کے بعد اس کے ذمہ دار اور طاقت ور ہوئے ، جتنے سانحات برپا ہوئے ذمہ داروں کی طاقت بڑتی گئی ،گویا سانحہ ان کے لئے طاقت کا ذریعہ ہے ۔نئے سانحات ہر وقت تشکیل کے مرحلہ میں رہتے ہیں ۔طاقتوروں کا مفاد اگر کسی حکمت سے قومی ترقی ، خوشحالی اور عوامی بہبود کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو تاریخ ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ دے سکتی ہے ورنہ پوچھا جائے گا ؛ کیا پاکستان کی صحافت ابھی زندہ ہے۔