ایک موزوں ترین منصوبے پہ عمل درآمد میں بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ایسے خوفناک بحران میں کنفیوژن اور بے عملی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ ایسی تیزی سے وبا پھیلی ہے کہ ساری دنیا گڑبڑا گئی۔ پاکستان کا تو کیا رونا کہ سول ادارے تباہ حال ہیں۔ لاہور میں ایک صاحب نے چھ ہزار روپے لے کر کورونا کے مریض کو جانے دیا۔جہاں مہیا تھے، وہاں بھی اکثریت نے ماسک خریدنے سے گریز کیا۔ یہ نسبتاً تیزی سے بنائے جا سکتے تھے، گھروں میں بھی۔ ڈاکٹروں کے لیے موزوں لباس مہیا نہ تھا۔ وینٹی لیٹرز کی تعداد کم نہیں، بہت ہی کم ہے۔ شہباز شریف کے دس سالہ دور میں صحت کا ساٹھ فیصد، تنخواہوں کے بعد عملاً دس پندرہ فیصد ہی خرچ ہوتا رہا۔ اب تو مالی حالات دگرگوں ہیں۔ ذمہ داری صرف حکومت نہیں، شہریوں کی بھی تھی۔ انہوں نے المناک غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ وسائل رکھنے والوں نے راشن ضرور خریدا لیکن گھومنے پھرنے پر تلے رہے۔ معاملے کی سنگینی کو حکومت پوری طرح واضح کر سکی اور نہ عام لوگوں نے اس کا ادراک کیا۔ قانون سے انحراف میں ہم ایک راحت محسوس کرتے ہیں۔ ریاست اور شہریوں میں اعتماد کا رشتہ ہی نہیں۔ پہلے دن سے واضح تھا کہ فوجی مدد کے بغیر وبا پہ قابو پانا محض ایک خواب ہوگا۔ دنیا کے سامنے صرف ایک کامیاب ماڈل تھا۔ مکمل طور پر لاک ڈاؤن، پوری آبادی کو گھروں میں بند کرنے کا فیصلہ۔ پاکستان میں چین کے ماڈل پر پوری طرح عمل درآمد ممکن نہیں۔ وہ ڈسپلن کے عادی ہیں۔ انحراف پہ سزا یقینی۔ فوج کی مدد سے پاکستان میں 90فیصد عمل درآمد ممکن تھا۔ تنور، بیکریاں اور راشن کی دکانیں کھلی رہتیں لیکن تقاضوں کے برعکس وزیرِ اعظم قوم کو گھبراہٹ سے بچنے کا درس دیتے رہے۔ اخبار نویسوں کو بتایا کہ تفتان میں کسی سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی۔ الٹا بلوچستان حکومت کی تعریف کی۔ یہ کام ایف سی کو سونپا ہوتا، جو بلوچستان کے چپے چپے پر موجود درجنوں فلاحی، تربیتی اور تعلیمی ادارے چلا رہی ہے، تو نتائج کہیں بہتر ہوتے۔ تفتان میں جوکچھ ہوا، وہ غلطی نہیں تو اور کیا ہے۔ لیڈرانِ کرام پریس کانفرنسوں کا اہتمام کرتے رہے۔ گورنر پنجاب نے کئی بار اخبا رنویسوں کو یاد کیا۔ تبلیغی جماعت سالانہ اجتماع کرنے پر مصر رہی۔ علماء کرام محترم میں سے بعض سوشل میڈیا پر پیغام دیتے رہے کہ مساجد ہرگز بند نہ کی جائیں۔ مذہبی طبقات سے خوفزدہ حکومت چپ رہی، مکالمہ تک نہ کیا۔ یا للعجب مفتی تقی عثمانی نے بھی اس موقف کی حمایت کی۔ دو تین بار وہ نمودار ہوئے۔ پہلی بار وبا کی دعا ہی بتانا بھول گئے۔ دعا وہ بتائی، جو مرض میں مبتلا ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ دوسری بار ایک بزرگ کا تذکرہ کیا، جن کا دعویٰ ہے کہ کثرت سے وہ رسول اللہ کو خواب میں دیکھتے ہیں۔سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے لے کر امام ابو حنیفہؓ تک اور جنیدِ بغدادؒ سے لے کر خواجہ مہر علی شاہؒ تک کبھی کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا۔ خود ہی ارشاد فرمایا کہ خواب حجت نہیں اور خود ہی اس خواب کے اشارے کی پیروی کا مشورہ دیا۔ وزیرِ اعظم نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر وہ دوسرے ملکوں کی صورتِ حال کاجائزہ لیتے رہے۔ اتنی فرصت وہ کیسے پاسکے۔سارا وقت انہیں ماہرین کے ساتھ مشاورت میں شریک رہنا چاہئیے تھا۔ یاد ہے کہ 2002ء میں جنرل مشرف کی طرف سے تحریکِ انصاف پر یلغار کے بعد، اگلے تین برس شدید بے عملی کا موصوف شکار رہے تھے۔ 2006ء میں جہانگیرہ نامی قصبے میں خلقِ خدا کے امنڈنے کے بعد، متحدہ مجلسِ عمل سے جو نالاں تھے، انہیں ادراک ہو اکہ متبادل قیادت کی قبولیت ممکن ہے۔ اس اثنا میں بھی پارٹی کی تنظیم پر توجہ دینے اور کارکنوں کی تربیت یقینی بنانے کی بجائے بیشتر وقت ٹیلی ویژن پر صرف کیا۔30اکتوبر2011ء کو لاہور کے جلسہ ء عام کے بعد، واضح ہو گیا کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی سے خلقِ خدا اکتا چکی۔ اچانک پالیسی بدلی، ہر طرح کے لوگوں کو نہ صرف قبول کیا بلکہ رفتہ رفتہ پارٹی کی قیادت ان کے حوالے کر دی۔ جماعت میں جھگڑے سر اٹھاتے رہے، گروہ بنتے رہے لیکن اب بھی تنظیم سازی اور قضیے چکانے پر کوئی توجہ نہ دی۔ 30اکتوبر 2011ء کے بعد اگلے چھ ماہ تک یہ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت تھی لیکن پھر د وتباہ کن غلطیاں کیں۔ پارٹی میں الیکشن کا اعلان کر دیا، جس میں بڑے پیمانے پر ووٹوں کی خریداری ہوئی۔ الیکشن 2013ء کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو المناک غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ 2012ء کے موسمِ بہار میں ہونے والے تینوں سروے بتا رہے تھے کہ 90سیٹیں آسانی سے جیتی جا سکتی ہیں مگر ٹکٹ اس طرح بانٹے اور کچھ بیچے گئے کہ صرف 34نشستیں جیتی جا سکیں۔ پھر پوری توجہ پختون خوا پہ صرف کرنے کی بجائے ساری توانائی دھرنے میں جھونک دی۔ سکولوں، ہسپتالوں، پولیس اور سب سے بڑھ کر پٹوار کی اصلاح اور ایک ارب درخت گاڑنے میں حسنِ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو اگلی بار 33کی بجائے 65سیٹیں جیت لیں۔ ساری توجہ اگر عوامی مسائل سلجھانے پہ ہوتی تو پختون خوا مثالی صوبہ بن جاتا۔ شاید تین چوتھائی سیٹیں جیت لی جاتیں لیکن سارا وقت خواب دیکھنے اور دکھانے میں بتا دیا۔ باہر سے دو سوبلین ڈالر آئیں گے۔ تمام قرض چکا دیے جائیں گے۔غیر ملکی اداروں سے قرض نہیں لیا جائے گا۔ پچاس لاکھ مکان بنیں گے اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم ہوں گی۔ اس قدر پر یقین تھے کہ اوّل سو دن اور پھر چھ ماہ میں یقینی نتائج کا دعویٰ کرتے رہے۔ برسرِ زمین صورتِ حال یکسر مختلف تھی۔ زرداری اور شریف حکومتوں کی بدعنوانیوں کا تدارک کرنے کے لیے پچھلی حکومتوں سے زیادہ قرض لینا پڑا۔ ثابت یہ ہوا کہ فہم و ادراک برائے نام ہے۔ مشاورت ناموزوں لوگوں سے۔ شریف اور زرداری خاندان کا تو کیا رونا، لوٹ مار ان کا طرزِ زندگی تھامگر نئے حکمران یکسر ناکردہ کار ثابت ہوئے۔ پولیس، عدلیہ، ٹیکس کے نظام کی اصلاح اور کاروباری ماحول سازگار بنانے کی بجائے،احتساب کی تلوار سروں پہ لٹکا دی گئی۔ قومی ترجیحات میں یہ اوّلین ترجیح بن گئی۔ خسرو بختیار ایسے وزیر دندناتے رہے۔ اپوزیشن لیڈروں پر قائم کردہ مقدمات کی نیب نے اس خوبی سے پیروی کی کہ حمزہ شہبازکے سوا سب کے سب ضمانت پر رہا ہو چکے۔ وزیرِ اعظم اب بھی اپنی ترجیحات بدلنے پر آمادہ نہیں۔ اب تو خیر وبا ہے۔ عمران خان کو کیا کہیے، ڈونلڈ ٹرمپ بھی بچگانہ باتیں کر رہے ہیں۔ وبا کا خوف گھبراہٹ اور کنفیوژن پیدا کرتاہے۔ چین کے سوا ساری دنیااسی میں مبتلا ہے۔ ایران اور اٹلی کی حالت سامنے ہے۔ بے تکی دوائیں تجویز کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی ابھی کہا کہ جنوری میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خطرے کی نوعیت واضح کر دی تھی۔ واضح تھی تو روبہ ء عمل آنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟ مکمل لاک ڈاؤن کی طرف ملک بڑھ رہاہے۔ نگرانی کے نظام میں فوج کو کلیدی کردار ادا کرنے کے سو اکوئی چارہ نہیں۔ ایک ایسا نظام، جس میں خوراک کی کمی نہ ہونے پائے۔ بالخصوص محتاجوں اور مفلسوں کے لیے۔ گھبراہٹ اور مہم جوئی سے اوپر اٹھ کر توازن اور تحمل مگر جرات مندی سے ایک جامع منصوبے کی تشکیل۔ایک موزوں ترین منصوبے پہ عمل درآمد میں بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ایسے خوفناک بحران میں کنفیوژن اور بے عملی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔