وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ:1.4 ارب لوگ کشمیر تنازع کی وجہ سے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ چاہے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آذربائیجان کا دورہ کیا ،جہاں انہوں نے صدر الہام علیوف سے ملاقات کی، جس میں آذر بائیجان کے صدر نے کہا کہ آذر بائیجان کشمیر پر پاکستان کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔ 5 اگست 2019ء کو مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، جس کے بعد عالمی سطح پر ایک بار پھر کشمیر شہ سرخیوں میں آ گیا۔ اس سے قبل اقوام متحدہ ،سلامتی کونسل ،انسانی حقوق کی تنظیمیں‘ اور یورپی یونین مسئلہ کشمیر کو بھول چکی تھیں۔بڑے سے بڑے سانحہ پر بھی کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کیا جاتا تھا ۔جبکہ وہاں پر ہر روز قابض افواج کشمیریوں کا قتل عام کرتیں‘ خواتین کی بے حرمتی کی جاتی‘ کشمیری جوانوں کو عسکریت پسند قرار دے کر قتل کیا جاتا لیکن عالمی برادری اس پر ٹس سے مس نہیں ہوتی تھی۔ جیسے ہی مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وہاں پر کرفیو کا نفاذ کیا، تو اس پر نہ صرف او آئی سی حرکت میں آئی بلکہ عالمی برادری نے بھی مودی کے اس اقدام کی شدید مذمت کی۔مودی سرکار پر یہ اقدام واپس لینے کیلئے دبائو ڈالا گیا ۔لیکن بھارت نے کسی کی نہ سنی ،کیونکہ وہ اس زعم میں تھا کہ کشمیری عوام اس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اس کی بالادستی کو قبول کر لیں گے۔لیکن مودی سرکار کے یہ خواب اس وقت چکنا چور ہو گئے جبکہ کشمیری عوام نے طویل مزاحمت کی نئی داستاں رقم کر دی۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی باقاعدہ چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے شاطر دشمن سے بچائو کے لیے اسلحہ بنا رہا ہے جبکہ مودی سرکار بھی اپنے سوا ارب لوگوں کا پیٹ کاٹ کر اسلحے کے انبار اکٹھے کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں درست کہا ہے: کہ اگر ہمیں ایک شاطر دشمن کا سامنا نہ ہوتا تو ہم ایٹمی قوت بننے کی ضرورت نہ تھی ۔ہم نے تو بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے تھے ۔کیونکہ بھارت کی ہر وقت کوشش ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرے۔ اب بھی بھارت نہ صرف افغانستان کے راستے سے پاکستان میں دراندازی کر رہا ہے بلکہ بلوچستان میں بھی وہ تخریب کاری سے باز نہیں آتا۔ کلبھوشن جادیو اس کی تازہ مثال ہے۔ اس سے قبل کشمیر سنگھ سمیت کئی دہشت گردوں کو پاکستان گرفتار بھی کر چکا ہے۔ بھارت کی آبادی کا بڑا حصہ غربت کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ اگر بھارت اسلحہ کے ڈھیر اکٹھے کرنے کے بجائے اپنے عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے پر اتنا پیسہ خرچ کرتا توآج عدم سہولیات کی بنا پر بھارت میں کورونا سے اس قدر ہلاکتیں نہ ہوتیں۔ مقبوضہ وادی میں لگے کرفیو کو دو برس ہونے کو ہیں۔ ان دو برسوں میں نہ تو کشمیریوں کے عزم میں کمی آئی نہ ہی انہوں نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور نہ ہی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق والے موقف میں تبدیلی آئی۔ اس بنا پر مجبور ہو کر مودی سرکار نے 24 جون کو کشمیر کے بارے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی ہے، جس میں مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھی شرکت کی دعوت دی گی ہے۔ اس کانفرنس میں آرٹیکل 370 کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی امید ہے کیونکہ مودی سرکار کسی نہ کسی طرح عالمی دبائو سے نکلنا چاہتی ہے۔ کورونا کے باعث بھارت میں ہونے والی اموات نے مودی کی رہی سہی مقبولیت کو ختم کردیا ہے۔ اس وقت پرائے تو پرائے اپنوں نے بھی مودی کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کی تحریک بھی مودی کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ درحقیقت مودی سرکار چار اطراف سے گر چکی ہے۔ پاکستان نے بھی دو ٹوک الفاظ میں اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کی جاتی،تب تک بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا امکان نہیں ہے ۔ ان حالات میں مودی سرکار دبائو میں ہے۔ لہٰذا اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکہ اگر چاہے تو مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے بیس برس کی جنگ کر کے خود دیکھ لیا ہے کہ اگر مقامی لوگ آپ کے خلاف ہوں، تو ایسی جنگ بیس برس کیا ستر برس بھی لڑی جائے تو جیتی نہیں جا سکتی۔ بھارت 73 برس سے کشمیریوں کو اسلحہ کے زور پر ہمنوا بنانے میں لگا ہوا ہے لیکن کشمیری عوام بھارت کی ہر پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا کر اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، جو بھارت کے لیے باعث شرمندگی ہے۔اسی بنا پر مودی سرکار نے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر اس خفت کو مٹانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس پر بھی محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کر کے کشمیریوں کے دلوں کی آواز بننا چاہیے۔ خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ۔ آذربائیجان نے بھی کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بھارت کو دفاعی پوزیشن پر جانے پر مجبور کیا جائے اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کر کے خطے کو پرامن بنانے کی شروعات کی جائے۔