مشہور مقولہ ہے کہ دنیا میں کوئی فری لنچ نہیں، اور پاکستان میں کوئی فری الیکشن نہیں،کم از کم ہماری زندگی میں تو یہ ممکن نہیں۔ الیکشن پر خرچ کیا گیا پیسہ،ہزار گنا وصول کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق اوسطاً قومی حلقے کا ہر امیدوار انتخابی مہم پر دس سے پندر ہ کروڑ روپے خرچ کرتا ہے جبکہ قانونی حد صرف چالیس لاکھ ہے اورمیں یہ بات اعتماد کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ انتخابی مہم پر شاہانہ خرچ کرنے والے امیدوار ہر قسم کی دھاندلی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ حال ہی میںپتن نے دھاندلی پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں دھاندلی کے 163 حربے بتائے گئے ہیں۔ ہر حربے کے استعمال پر یقینا ً پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ لہٰذ ا ، جتنے زیادہ دھاندلی ک کے حربے ، اتنا زیادہ پیسے کا استعمال۔ یہ دیکھنے کیلئے آپ کو محد ب عدسہ کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اکثر یہ دیکھتے ہیں کہ ایم این اے اور ایم پی اے کہلانے والے گھوڑے 25 کروڑ روپے میں صرف ایک ووٹ کے عوض خریدے جا رہے ہیں۔الیکشنز ایکٹ 2017 کا باب آٹھ انتخابی مالیات سے متعلق ہے اور انتخابی مہم پر رقم خرچ کرنے کا فریم ورک فراہم کرتا ہے، لیکن قانونی حد کی خلاف ورزی کرنے پر کبھی کسی امیدوار کو نہیں پکڑا گیا اور نہ ہی سزا دی گئی۔ یہ ایکٹ 240 آرٹیکلز اور 150 ذیلی آرٹیکلز پر مشتمل ہے۔ حال ہی میں، ایک انتخابی مبصر گروپ کے ایک گْرو نے بے شرمی کے ساتھ دلیل دی کہ پولنگ عملے اور امیدواروں کی طرف سے کی جانے والی بے ضابطگیوں کو دھاندلی نہیں سمجھا جانا چاہیے،کیونکہ اس کا انتخابی نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ انتخابی اعدادو شمار کا تجزیہ ان کے دعوے کی تائید نہیں کرتا ہے۔ درحقیقت، یہ دھاندلی (بے ضابطگیوں) اور نتائج کے اثرات کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر بیلٹ پیپر کی دوسری طرف دستخط نہیں کرتا ہے، تو اس بیلٹ پیپر کو گنتی سے خارج کر دیا جاتا ہے ، اور اس طرح جیتنے ہارنے میں فرق پڑتا ہے۔ اب پنجاب اسمبلی کے حالیہ ضمنی انتخابات پر تبصرہ کرتے ہیں۔ کچھ محقق اور مبصر گروپوں نے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ایم ایل این کا ووٹ بینک 519,622 سے 39 فیصد بڑھ کر 858,623 ہو گیا ہے۔ درحقیقت، پی ایم ایل این نے 2018 کا الیکشن اکیلے ہی لڑا تھا، جبکہ 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے لیے، تمام پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے مل کر الیکشن لڑا تھا۔ اس لیے 2018 کے الیکشن میں ان تمام جماعتو ں نے بارہ لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے ،حالیہ بیس ضمنی انتخابات میں ان تمام کے کل ووٹ اٹھائیس فیصد کم ہوگئے ہیں ، یعنی 858,623 ووٹ رہ گئے ہیں۔ اسی مبصر گروپ نے ضمنی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ انتخابات منصفانہ ہوئے ہیں ، لیکن حیرت انگیز طور پر اس نے مبینہ دھاندلی کے دعوؤں کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔پتن نے حالیہ ضمنی انتخابات میں دو سروے کئے؛ پہلا 15 جولائی اور دوسرا 17 جولائی کو۔ جواب دہندگان میں 62 فیصد مرد اور 38 فیصد خواتین تھیں۔ یہ سروے 15 حلقوں کے 270 سے زیادہ پولنگ مقامات پر کیا گیا۔ ہمارے سروے کے مطابق پی ٹی آئی کو 47 فیصد اورپی ڈی ایم کے لیے 34فیصد حمایت حاصل تھی اورای سی پی کے جاری کردہ انتخابی نتائج نے ہمارے سروے کو درست ثابت کیا ہے۔ ہمارے سروے نے زیادہ ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی بھی کی تھی اور یہ بھی سچ ثابت ہوئی۔ اپنے سروے اور مشاہدے کی بنیاد پر ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں منظم مداخلت اور جوڑ توڑ کے باوجود تمام مقابلہ کرنے والی جماعتوں نے نتائج کو قبول کر لیا ہے جو کہ ایک بے مثال اور خوش آئند سیاسی پیشرفت ہے۔ ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ انتہائی منقسم سیاسی ماحول نے ووٹروں میں بے مثال جوش و خروش پیدا کیا جس کے نتیجے میںٹرن آئوٹ بڑھا اور بعض کو اس سے پریشان بھی ہوئی ۔جہاں تک پارٹی امیدوار کے انتخاب کا تعلق ہے، مرد اور خواتین جواب دہندگان کے درمیان کوئی اختلاف نظر نہیں آیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 80فیصد سے زیاد ہ جواب دہندگان نے کہا کہ ان کے خاندان کا ہر فرد ایک ہی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے رہا ہے۔۔ پتن کا سروے ووٹ خریدنے اور زبردستی کے طریقوں کے استعمال کے رجحان کو بھی ظاہر کرتا ہے، کیونکہ سات فیصد جواب دہندگان نے اپنے محلوں میں ذاتی طور پر اس کا مشاہدہ یا تجربہ کیا۔ لوگوں نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کے سلسلہ میں کسی نہ کسی کا دباؤ کے حوالے سے زمینداروں، آجروں، مذہبی رہنماؤں اور خاندانی بزرگوں/شوہروں وغیرہ کی طرف اشارہ کیا ۔ سروے کے سات فیصد جواب دہندگان کے نزدیک ضمنی انتخابات آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے نہیں ہوئے جو کہ پاکستان کے انتخابی نظام میں جہاں ایک ووٹ سے فتح یا شکست کا سامنا ہو سکتا ہے ، یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں ہر الیکشن میں پولنگ ایجنٹس کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ پولنگ ایجنٹس رکھنے کا کیاجواز ،اگر انہیں پولنگ ڈیسک سے دور رکھا جائے اور ہر ووٹرکا نام با آواز بلند نہ پکار ا جائے ، جبکہ یہ ایک قانونی تقاضہ ہے۔ 34 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ بیلٹ پیپر جاری کرنے سے پہلے ان کے ناموں کا اعلان بلند آواز میں نہیںکیا گیا ، ضمنی انتخابات سے پہلے اور پولنگ کے دن دھاندلی کی اہم کوششوں کے باوجود، چوکس اور باخبر پولنگ ایجنٹس نے زیادہ تر حلقوں میں پولنگ کے عمل کو پرامن رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاںیہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان سمیت جس ملک میں ’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘ کا انتخابی نظام رائج ہے، وہاں امیدوار ایک ووٹ سے بھی ہار یا جیت سکتا ہے۔ اس لیے دھاندلی کی ضرورت نہیں ہے۔ بہت سے پولنگ بوتھوں میں، انتہائی سمجھداری اور ہوشیاری سے کی گئی چھوٹے پیمانے کی دھاندلی ، جس کا سراغ لگانا انتہائی مشکل ہے، 'من پسند' نتائج حاصل کرنے کے لیے کافی ہے۔ سلسلہ میں ہماری سفارشات یہ ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے اندر حقیقی جمہوریت لانے کیلئے ،موجودہ سیاسی تقسیم کو استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پہلے ا قدام کے طور پر پارٹیوں کو ممبر سازی مہم کا آغاز کرنا چاہیے۔ ایلیکٹ ایبلز کی کہانی اب ختم ہو چکی ہے۔ اس گرتی دیوار کو آخری دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات کے دوران ووٹر لسٹوں کی تیاری اور حلقہ بندیوں کے تعین میں پولیس اور سول انتظامیہ کوالیکشن کمیشن کے ماتحت کیسے بنایا جائے۔ای وی ایم کے استعمال کو متعارف کرانے سے، ملک میںمستقبل کے انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ عمل کو بہتر بنا یا جا سکتا ہے۔