’’مذہب کارڈ‘‘کاسادہ سا مفہوم تو یہی ہے کہ ہم اپنے سیاسی عزائم یا ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے حسبِ ضرورت’’مذہب‘‘ کے استعمال سے بھی گریزاں نہیں ہوتے ، ہمارے ہاں آج کل یہ’’ اصطلاح‘‘ سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بہت زیادہ مستعمل ہے ،ویسے …ہماری تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ کسی بھی حکومت کی بساط سمیٹنے یا نئی کے لیے راستے سنوارنے کے لیے یہی ’’مذہب کارڈ‘‘ہمیشہ معتبر اور مؤثر رہا ۔ پچاس کی دہائی میں چلنے والی تحریک ختم نبوت اور اس کے نتیجہ میں لاہو رمیں لگنے والے مارشل لاء یا 1977ء کی تحریک نظام مصطفی …اور پھر اس کے نتائج وعواقب کی بات نہیں کرونگا، داراشکوہ کو میر قادری سلسلے کی تائید اور حضرت میاں میر ؒ کے ساتھ اس کی ارادت اور اس کے بالمقابل اوررنگ زیب کے سرہند شریف کے ساتھ تعلقا ت اورحضرت مجدد الف ثانیؒ کے خانوادے اورنقشبندی سلسلۂ تصوّف اور راسخ الاعتقاد قوتوں کے عملی حمایت کی تفصیل میں بھی نہیںجاتے ۔حضرت شاہ ولی اللہ کے ایماء پر نادر شاہ درانی کی ہندوستان پرفوج کشی ، فیروز شاہ تغلق کی تخت نشینی کے لیے مخدوم جہانیاں جہانگشت اور نصیر الدین چراغ ؒکی آشیر باد، شمس الدین التمش کے طرزِ جہابنانی اور فتوحات میں قطب الدین بختیار کاکی کی دعائیں اور سلطان محمد غوری کی ترائن کی پہلی جنگ میں شکست اور خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی تائید اور اشارئہ غیبی پر،غوری کی ہندوستان میں دوبارہ فوج کشی اور ترائن کے میدان ( 1192ئ) میں اس کی سرخروئی کی تفصیل بھی پھر کسی موقع پر …واقعہ کربلا کے بعد کوفہ پر ابن زیاد کی مضبوط اور مستحکم حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے مختار ثقفی کو بھی ’’مذہبی تائید و حمایت ‘‘ درکار تھی …لیکن اس سے پہلے ---یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ حضرت عثمان غنی ؓکی شہادت(35ھ) کے بعد،تین دن تک’’ مسند خلافت‘‘ خالی رہی ، باغیوںنے نظم حکومت مفلوج کردیا، حضرت علی المرتضیؓ کی عُذر خواہی کے باوجود …حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ جیسے اکابر صحابہؓ بشمول مہاجرین وانصار کی پُر زورتائید سے ---حضرت علی المرتضیؓ منصبِ خلافت پہ متمکن ہوئے ۔حضرت امیر معاویہ ؓ…جو عہدِصدیقی ؓسے شام کے گورنر چلے آرہے تھے ۔اپنی معزولی کے پیش ِنظر---قصاصِ عثمان کا نعرہ بلندکرکے اُٹھے ، انہوں نے مدینہ منورہ سے حضرت عثمانؓ کا خون آلود کُرتہ اور اُن کی اہلیہ حضرت نائلہؓ کی ’’کٹی ہوئی انگلیاں‘‘ دمشق منگوالی اور انہیں جامع امویہ میں آویزاں کردیا، اس منظر سے شامیوں کے جذبات بھڑک اُٹھے ۔ لوگ گروہ در گروہ یہاں پہنچتے …آنسو بہاتے …اور ’’قصاص عثمان‘‘ کے لیے لگائے جانے والے نعروںمیں شامل ہوتے ،حالانکہ خلیفہ وقت بھی ’’قصاص عثمان‘‘ کے داعی اور حکومت کے مستحکم ہونے کے منتظر تھے ، ،لیکن یہ استحکام پیدا نہ ہونے دیا گیا او ریوںیہ قضیہ حضرت علی کے عہد ِخلافت میں حل نہ ہوسکا ، اور نہ ہی آپ ؓ کے بعد …جب امیر معاویہؓ بلادِ اسلامیہ کے 20سال مطلق العنان حکمران رہے ۔ واقعہ کربلا کا،حجازِ مقدس، بالخصوص مدینہ منورہ میں شدید ردّ عمل ہونا ایک فطری امر تھا ،جس کو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے "Chanalize" کیا ، اور یزید کے بالمقابل اپنی خلافت کا اعلان کردیا، جوکہ یزید کی موت …واقعہ 64ھ کے بعد …عراق ،مصر حتیٰ کہ شام کے معتدبہ حصّے میں عملاً وقوع پذیر ہوگئی ،اسی اثنا میں مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کوفے (عراق) سے ’’خونِ حسینؓ کے انتقام‘‘کے نعرے کے ساتھ میدانِ عمل میں اُترا، اور اپنی قسمت آزمائی کے لیے آگے بڑھنے کاخواہشمند ہوا،وہ جانتا تھا کہ اہل بیتِ اطہار کی تائید کے بغیر ،وہ کامیاب نہ ہوسکے گا۔عبداللہ بن زبیرؓ کی سیاسی حمایت، جبکہ "مذہبی تائید"کے لیے حضرت زین العابدینؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، ان سے مایوس ہو کر حضرت امام حسین ؓ کے سوتیلے بھائی حضرت محمدبن حنفیہ کے پاس آیا اور ان کو اپنی سرپرستی پر قائل کرلیا، عراق بہر حال مُحبّانِ اہلِ بیت کا مرکز تھا ، وہاں کوئی بھی انقلابی تحریک ’’اہل بیت‘‘ کی تائید کے بغیر پڑوان نہ چڑھ سکتی تھی ،جس کو مختار ثقفی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ کوفہ کی ایک اور نمایاں شخصیت سلمان بن صرد …اُس تحریک کے امیر تھے ،جس کے قیام کا بنیادی سبب کوفے کے لوگوں کی وہ ندامت ، شرمندگی اور پچھتاوا تھا، جس کے مطابق انہوں نے از خودخطوط لکھ کر امام کو بلوایا اور پھر وہ ان کی حفاظت وحمایت کا حق ادا نہ کرسکے ، چنانچہ یہ ’’احساس ندامت‘‘…ایک باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر گیا جس کا نام ’’توّابین‘‘ یعنی توبہ کرنے والے رکھ دیا گیا۔ مختار ثقفی نے اس تحریک کی توانائی سے بھی فائدہ اُٹھا یااوربالاخروہ عراق پر قابض ہوگیا، اس نے حضرت علی المرتضیؓ کی ہمشیرہ حضرت اُمِّ ہانی کی اولاد میں سے… جُعدہ …جن کے پاس حضرت علی ؓ سے منسوب وہ کرسی تھی ،جس پر آپؓ کوفہ میں بیٹھ کر علم وحکمت اور قضاوعدالت جیسے امور نپٹاتے تھے ، کو بھی حاصل کرلیا اور اُسے بنی اسرائیل کے ’’تابوت سکینہ ‘‘ کی طرح مقدس اور وسیلۂ فتح ونصرت قرار دیا ۔ اس نے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی اور مہم جوئی کے ذریعے ان تمام افرادکا پتہ لگایا جو واقعہ کربلا کا حصہ تھے ، شامی فوج کے کمانڈر اور افسران جن میں شمرذی الجوشن ، خولی بن یزید ، عمر وبن سعد اور عبید اللہ بن زیاد بطور خاص شامل ہیں ، کا چن چن کر خاتمہ کیا ۔ــ’’ جامع الترمذی‘‘ باب المناقب کے مطابق راوی بیان کرتا ہے: ’’-----جب ابن زیاد اوراس کے ساتھیوں کے سر کوفہ میں لائے گئے، توجہاں سررکھے ہوئے تھے، میں وہاں پہنچا تو لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ آگیا ، آگیا ۔اچانک ایک سانپ آیا اور ان سروں کے درمیان پھرتا ہوا، ابن زیاد کے نتھنے میں گھُس گیا اور تھوڑی دیر اُس کے اندر پھرنے کے بعد باہر چلا گیا اور لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگیا۔ لوگوں نے پھر نعرہ لگایا آگیا ،آگیا تو اس سانپ نے دوبارہ آکر وہ عمل دوہرایا اور پھر چند بار اُس نے ایسا ہی کیا۔‘‘مختار ثقفی نے ابن زیاد کا یہ سر امام زین العابدین کی خدمت میں مدینہ منورہ میں ارسال کیا،اور یوںاُس نے ان قاتلین حسین کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرکے محبین اہلبیت کے دلوں کو ٹھنڈا کیا ۔ جس حکومت اور اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے بنو امیہ نے ساری رسوائیاں جمع کیں ،وہ بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد ۔آپ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ اور ان کی اولاد بھی آپ ﷺ کی موروثیت کی دعویدار تھی ۔ مزید یہ کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے ،ان کی اولاد میں خلافت کے رائج ہونے کا اشارہ بھی فرمایا تھا ، جس کے سبب یہ خاندان بھی در پردہ خلافت کا امیدوار رہا، حضرت اما م زین العابدین کے کنارہ کش ہو جانے اور محمد بن حنفیہ اور پھر ان کے بیٹے ابو ہاشم عبداللہ کے سیاسی محاذ پر نمایاں ہونے …اور پھر …اموی سازش کے نتیجہ میں، ان کی اچانک موت کے سبب ، ان کی نیابت حضرت عبداللہ بن عباس کے پوتے محمد بن علی بن عباس کوتفویض ہوئی اور اس کے ساتھ ہی عراق وخراسان وغیرہ کے محبین اہل بیت بھی بنو عباس کی قیادت میں آگئے ۔عراق اورخراسان اپنے تاریخی پس منظر کی بناء پر اس تحریک کے مرکز بنے اور’’بنوہاشم‘‘ واقعہ کربلا ،قتل حسین اور اہل بیت کی مظلومیت کو عباسیوں نے خوب استعمال کیا ۔ اگرچہ بعد میں عباسیوں کے عہدِ خلافت میں بھی ائمہ اہل بیت کو آسودگی میسر نہ آئی ---بہرحال 132ھ میں واقعہ کربلا کے صرف70سال بعد ،بنو امیہ کے اقتدار کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ،اورابو العباس عبداللہ سفاح برسر اقتدار آیااور پھر اس نے اپنی آتشِ انتقام ٹھنڈی کرنے کے لیے جو کچھ کیا ، وہ ایک الگ داستان ہے ۔