دوہزار بائیس کے اسی ستمبر کے تیسرے ہفتے کا کوئی دن تھا۔ مسز شارلین کیکورا صبح ساڑھے تین بجے فون کی گھنٹی بجنے سے گہری نیند سے بیدار ہوتی ہیں، فون ہر ہیلو کہتی ہیں تو دوسری طرف لائن پر۔ کوئی اور نہیں امریکی صدر جو بائیڈن ہیں جو مسز شارلین کو خوشخبری دیتے ہیں آپ کے بھائی کی رہائی کی کوششیں کامیاب ہوچکیں وہ جلد آپ سے آن ملے گا۔اگلے دو دن امریکی میڈیا میں مسز شارلین کے ایکسکلوزیو انٹرویوز اور سٹوریز چلنے لگتی ہیں۔کہانی کیا ہے اس کے پس منظر میں جھانکتے ہیں۔چند دن پہلے عالمی میڈیا میں یہ خبر بہت اچنبھے کے ساتھ سنی گئی کہ امریکا اور طالبان حکومت کے درمیان قیدیوں رہائی کا تبادلہ ہوا ہے۔اس معاہدے کے تحت افغان طالبان نے امریکی کی نیوی کے کنسٹرکٹر انجینئر مارک فیرکس کو امریکا کے حوالے کیا اور اس کے بدلے میں اپنے افغانی شہری حاجی بشیرنورزی کی رہائی کو ممکن بنایا۔حاجی بشیر نورزئی گزشتہ 17 سال گوانتا ناموبے کی بد نام زمانہ جیل میں قید تھا ۔یہ سب کیسے ہوا۔امریکی انجینئر مارکس گزشتہ دس سال سے افغانستان میں تھا اور اور 2020 کے جنوری میں اسے۔اغواکیا گیا۔ اس کے بعد سے وہ طالبان کی قید میں تھا۔ پھر اس کی ایک ویڈیو منظر عام پر آتی ہے جس میں وہ امریکی حکومت سے درخواست کر رہا ہے کہ اسے طالبان کی قید سے رہائی جائے۔امریکہ میں اس کی بہن شارلین پہلے ٹرمپ اور پھر جو بائڈن انتظامیہ پر سے درخواست کرتی ہے کہ اس کے بھائی کو قید سے رہائی دلا کر افغانستان سے واپس امریکہ لایا جائے۔ اب اس کہانی کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں اور آپ کو میں ایک نئے منظر نامے میں لے کر جاتی ہوں۔ستمبر کے اسی مہینے میں جب ایک امریکی اور افغانی قیدیوں کا آپس میں رہائی کا تبادلہ ہوتا ہے ٹھیک انہی تاریخوں میں امریکہ کے ریاست ٹیکساس کی ایک جیل میں پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی قید کو بارہ برس گزر جاتے ہیں ۔ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی پاکستانی حکومت کے کرتا دھرتاؤں کو پاکستان کے صحافتی دانشوروں کو ایک بار پھر خطوط بھیجتی ہے کہ اس کی بہن عافیہ صدیقی کو امریکی جیل کے انسانیت سوز قید سے رہائی دلانے کے لیے اقدامات کریں۔ امریکی جیل میں عافیہ صدیقی کے ساتھ جنسی زیادتی سمیت ہر طرح کے انسانیت سوز سلوک ہورہا ہے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی گزشتہ 20 برس سے پاکستان کے بے حس حکمرانوں کے دلوں پر اسی تڑپ اور شدت سے دستک دے رہی ہے۔اس دوران کتنے وزراء اعظم آئے اور گئے ظفر اللہ خان جمالی ،شوکت عزیز ،یوسف دضا گیلانی، نواز شریف، خاقان عباسی ،عمران خان اور اب شہباز شریف وزیراعظم ہیں۔ صرف ڈاکٹر فوزیہ ہی نہیں ان کی عمر رسیدہ والدہ عصمت صدیقی بھی حکمرانوں سے بیٹی کی وطن واپسی کی درخواست کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔ مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی ان تمام سیاسی جماعتوں کے منشور کا حصہ ہے جو وقتا فوقتا اقتدار میں آتی رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سے والدہ عافیہ عصمت صدیقی کو بہت امیدیں تھیں کہ عمران خان ان کے بیٹے بنے ہوئے تھے لیکن اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں عمران خان نے اس مسلے۔کوئی سنجیدہ سفارتی کوشش نہ کی بلکہ عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی کا فون بھی اٹھانے سے انہوں نے گریز کیا۔ ایسی ہی شرمناک وعدہ خلافیاں نواز شریف اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے کیں۔عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی اپنی بیٹی کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے چلی گئی۔23 ستمبر 2022 کو عافیہ صدیقی کہ گمشدگی کو مجموعی طور پر بیس برس گزر گئے ہیں جبکہ امریکی جیل میں قید کو بارہ برس ہونے کو آئے ہیں۔ ایک امریکی شہری کی بہن اپنے بھائی کی رہائی کے لیے امریکہ سرکار سے درخواست کرتی ہے کہ میرے بھائی کو قید سے رہائی دلائیں تو امریکا اپنے تمام تر کرو فر اور سپر پاور ہونے کے زعم سے نکل کر طالبان حکومت سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔کیونکہ اس کے لئے ایک امریکی کی جان اور عزت قیمتی ہے۔ دوسری طرف افغانستان جیسی بے سروسامان حکومت جس وقار اورخودداری کے ساتھ کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر معاملات کو طے کرکے اپنے شہری کو بھی امریکی جیل سے رہائی دلاتی ہے، اس سے اس نظریے کی بھی شکست ہوتی ہے کہ سپر پاور کے سامنے کوئی سر اٹھا کے بات نہیں کر سکتا ۔یہاں ریمنڈڈیوس کا سانحہ بھی ہوا جو دن دہاڑے بے گناہ پاکستانیوں کے سینوں میں گولیاں اتار کر انہیں قتل کرتا ہے۔ اور پھر اس امریکی قاتل کو بچانے کے لیے پاکستان کا " نظام انصاف" جس طرح بچھ بچھ گیا وہ سب کے سامنے ہے۔اس وقت بھی موقع تھا کہ سفارتی سطح پر کچھ لو کچھ دو کے اصول پر مذاکرات کرکے عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن بنائی جاتی۔ایسا مگر ہمارے ہاں کیسے ممکن تھا یہ خوددار قوموں کا شیوہ ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کی جان اور عزت کو قیمتی سمجھیں۔ طالبان کی قید میں مارک کی بہن شارلین اپنے بھائی کی رہائی کے لیے کوشش کرتی ہے تو دو سال کے اندر اس کے بھائی کی رہائی ممکن بنا دی جاتی ہے۔ یہ امریکی صدر کے لیے اتنی بڑی خبر ہے کہ وہ ملکہ برطانیہ کے جنازے کے ہائی پروفائل تقریب کی مصروفیت سے وقت نکال کر خود شارلین کو فون کرکے یہ خوشخبری سناتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کوئی اعلی عہدیدار بھی شارلین کو فون پر یہ خبر دے سکتا تھا۔ لیکن جو بائیڈن کا اپنی امریکی شہری کی رہائی کی اطلاع شارلین کو خود دینا ایک علامتی اظہار تھا کہ ان کے لیے یہ معاملہ کتنا اہم ہے۔ جبکہ دوسری طرف عافیہ صدیقی کی بہن گزشتہ 20 سال سے دہائی دے رہی ہے عافیہ کی قید سے متعلق ہر اہم تاریخ پر خطوط لکھ کر حکومت وقت کو یاد دہانی کراتی ہے کہ خدا کے لیے 86برس کی انسانیت سوز سزا بھگتنی عافیہ کو انسان سمجھو اس کی رہائی کے لیے کچھ تو کرو ڈاکٹر فوزیہ کی یہ تڑپ انگیز صدا سن کے دوسری طرف ایک سرد شرمناک بے حسی شرمناک سوال کرتی ہے کہ کون عافیہ؟ ؟؟