یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اشیا اپنے وجود میں کوئی نہ کوئی مقصد رکھتی ہیں ۔اگر یہ مقصد فوت ہوجائے تو اشیا جلد یا بدیر اپنا وجود کھودیتی ہیں۔ باالفاظ دیگر اشیا کی پیدائش،دریافت یا ایجاد بلا مقصد نہیں ہوا کرتی۔اگر ایک کرسی بہت خوبصورت ہے لیکن اس کی نشست میں کانٹے اگے ہوئے ہیں تو اسے ایک آرٹ کے نمونے کے طور پہ گھر کے کسی کونے میں تو رکھا جاسکتا ہے لیکن اسے کرسی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ اپنے بنیادی مقصد یعنی نشست کی سہولت وغایت سے محروم ہے البتہ اس پہ ناپسندیدہ اور بن بلائے مہمانوں کو بٹھایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح آپ کے ہاتھ میں موجود جدید موبائل فون جو آپ کو دنیا بھر سے مربوط رکھتا ہے ،سوشل میڈیا پہ ہر آن، آن لائن رہنے کی سہولت فراہم کرتا ہے، آپ کی سماعت و بصارت کے لئے آلہ تلذذ کا کام کرتا ہے ، کیسا ہو اگر یہ کال ملانے اور سننے کی صلاحیت سے محروم کردیا جائے۔یہ آپ کے لئے ایک دستی ریڈیو یا ٹی وی کا کوئی جدید ورژن تو بن جائے گا جن سے بازار بھرے پڑے ہیں لیکن اپنے مقصد اولی یعنی کال کرنے اور سننے کی صلاحیت سے محرومی کی وجہ سے موبائل فون نہیں کہلائے گا۔ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں جب کوئی شے اپنے مقصد سے دور ہٹ کر یا محروم ہوکر یا تو باقی نہیں رہتی یا بے کار محض ہوکر رہ جاتی ہے۔یہ اصول محض اشیا یا ان کے استخراجات پہ ہی لاگو نہیں ہوتا بلکہ نباتات،جمادات اور نوع انسانی پہ مشتمل اقوام اور ملک بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوتے بالخصوص اگر ان کے قیام کا کوئی اعلان شدہ مقصد ہو۔ آج ہم قرارداد پاکستان کی سالگرہ منا رہے ہیں۔ یہ دن پاکستان کے قیام کے مقصد کا تعین کرتا ہے جو اتنا واضح ہے کہ آج بھی بہت سی دھول اڑانے کے باوجود دھندلا نہیں پایا۔22 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ ہند کا سالانہ اجلاس شروع ہوا ۔ اس اجلاس میں ہندوستان بھر سے پچاس ہزار سے زائد مندوبین نے شرکت کی۔قائد اعظم اپنے خطبہ صدارت میں جو تاریخی اہمیت کا حامل ہے، اپنے مخصوص دو ٹوک انداز میں فرماتے ہیں کہ ہندو اور مسلم دو فرقے نہیں علیحدہ قومیں ہیں۔اس لیے ہندوستان میں پیدا ہونے والے مسائل فرقہ وارانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی نوعیت کے ہیں۔ہندوستان کے مسلمان آزادی چاہتے ہیں، لیکن ایسی آزادی نہیں جس میں وہ ہندوؤں کے غلام بن کر رہ جائیں۔ یہاں مغربی جمہوریت کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ ہندوستان میں صرف ایک قوم نہیں بستی۔ چونکہ یہاں ہندو اکثریت میں ہیں اس لیے کسی بھی نوعیت کے آئینی تحفظ سے مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ ان مفادات کا تحفظ صرف اس طرح ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔ ہندو مسلم مسئلے کا صرف یہی حل ہے اگر مسلمانوں پر کوئی اور حل ٹھونسا گیا تو وہ اسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کریں گے‘‘۔اس تاریخی اجلاس سے صرف دو ماہ قبل، جس میں پاکستان کے قیام کی بنیاد رکھی گئی 19 جنوری 1940 ء کو لندن کے ٹائم اینڈ ٹائڈ میگزین میں اپنے مضمون بعنوان ہندوستان کا آئینی مستقبل میں قائد اعظم نے لکھا:برطانوی طرز پہ رائج جمہوری نظام جو ہم نسلی اقوام کے تصور پہ قائم ہیں،ایسے ممالک کے لئے قطعی قابل نفاذ نہیں جہاں ایک سے زائد اقوام بستی ہوں۔ہندو او ر مسلم دوعلیحدہ قومیں ہیں جن کا مذہب اور طرز معاشرت ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔جہاں تک حکومت برطانیہ کا تعلق ہے وہ اپنے اس مقصد کا اعلان کرچکی ہے کہ ہندوستان کو جلدازجلد State of West Minister کے مطابق دولت مشترکہ کے دوسرے ارکان کے برابر آزادی دی جائے گی اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ ہندوستان میں اسی قسم کا جمہوری آئین نافذ کرنا چاہتی ہے جس کا اسے خود تجربہ ہے اور جسے وہ سب سے بہتر سمجھتی ہے۔ اس طرز کے آئین کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو سیاسی جماعت انتخابات میں کامیاب ہو اسی کے ہاتھ میں عنان حکومت ہو۔یہ ارادہ بظاہر صحیح معلوم ہوتا ہے، لیکن ہندوستان کے مخصوص اور غیر معمولی حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت غیر مناسب ہے۔ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں حکومت کے اتنے طویل تجربے کے باوجود برطانیہ اس ملک کے حالات سے اچھی طرح واقف نہیں، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے اکثر ممبر بھی اس معاملے میں بالکل بے خبر ہیں، اسی لاعلمی کے باعث اب تک یہ بات برطانیہ کی حکومت اور اس کے عوام کی سمجھ میں نہ آسکی کہ برطانوی طرز کا پارلیمانی آئین ہندوستان کے لیے ہرگز مناسب نہیں۔ برطانوی قوم صحیح معنوں میں ایک یک رنگ اور متحد قوم ہے اور وہاں جس طرز کی جمہوریت رائج ہے وہ اسی قومی یک رنگی اور اتحاد کی بنیاد پر قائم ہے، مگر ہندوستان میں حالات بہت مختلف ہیں اور قومی یک رنگی یہاں مفقود ہے۔لہٰذا برطانوی طرز کی جمہوریت اس ملک کے لیے بالکل موزوں نہیں۔ ہندوستان کی آئینی الجھنوں کا بنیادی سبب یہی ہے کہ یہاں ناموزوں اور ناموافق طرز حکومت کے قیام پر اصرار کیا جارہا ہے۔ ممکن ہے مغربی جمہوریت کے علمبردار اسے بیرسٹر محمد علی جناح سے زیادہ جاننے کا دعوی کرتے ہوں لیکن دو قومی نظریئے کا وہ کیا کریں جو قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کے دلو ں میں تیر نیم کش کی طرح پیوست کردیا ہے۔ایک بار نہیں کئی بار انہوں نے قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد پہ بلاابہام روشنی ڈالی۔متعدد مواقع پہ ان کی تقاریر اس کی گواہ ہیں کہ ان کے ذہن میں پاکستان کا نظریاتی نقشہ کیا تھا۔25 جنوری 1948 ء کوکراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:’’میں شرارت پہ آمادہ لوگوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کے اصول آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ میں ان لوگوں کو بتادینا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے۔ شرارت پہ آمادہ لوگ لیکن باز نہیں آئے اور انہوں نے قیام پاکستان کے مقاصدکو اپنے مذموم پروپیگنڈا سے زہرآلود کرنے کی کوشش کی ۔ آپ کا ذہنی خلل حقیقت کو بدل نہیں سکتاچاہے آپ خود الٹے لٹک جائیں اور یقین کیجئے مجھے قیام پاکستان کے مقصد سے برگشتہ بلکہ برافروختہ دانشور ایسی ہی چمگادڑیں نظر آتے ہیں جو اوہام و خواہشات کے اندھے غاروں میں الٹے لٹک رہے ہیں۔انہیں ان کے حال پہ چھوڑ کر ہمیں اس مقصد کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ جو اقوام اپنے مقصد وجود سے روگردانی کرتی ہیں وہ صحراوں میں برس ہا برس بھٹکتی پھرتی ہیں۔