اب چاہے پاکستان کی بانی مسلم لیگ کتنے ہی دھڑوں میں تقسیم ہو۔ 23مارچ کو ایک قومی دن مناتے ہوئے اگر اُس کی طویل تاریخ کی جزیات میں بھی نہ جایا جائے۔۔۔مگر اُس کے ذکر کے بغیر 23مارچ کا ذکر مکمل نہیںہوسکتا۔اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یقین بلکہ دعوے سے کہہ سکتا ہوںکہ ہمارے اسکولوں،کالجوں بلکہ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی نئی نسل کے ساتھ ہمارے سیاسی کارکنوں اور انٹیلی جینشیا بھی اس بات سے آگاہ نہ ہو کہ’’آخر23مارچ کی کیا تاریخی اہمیت ہے۔۔۔یعنی اگر 1906ء میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام اور پھر 34سال بعد لاہور میں 23مارچ1940 ء کی قرار داد پاس نہ ہوتی تو14اگست کو ملنے والی آزادی بھی ممکن نہ ہوتی۔جس کے ثمرات سے آج پاکستان کے کروڑوں عوام تو فیضیاب ہو ہی رہے ہیں۔۔۔مگر آج ہمارے وہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان اور رکن سینیٹ غیر منقسم ہندوستان میں کونسلر بھی شاید منتخب نہ ہوتے جو آج اسمبلیوں سے کروڑوں کے مشاہرے سے اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ شاہانہ ٹھاٹ باٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔جعلی بے نامی اکاؤنٹس۔۔اور کرپشن سے اربوں ،کھربوں بنانے والے تاجر اور افسران میں سے بیشتر جامع مسجد دہلی میں دودھ،دہی بیچ رہے ہوتے۔یہ لیجئے، جذباتیت سے مغلوب ہو کر میں 23مارچ کو کہیں دور چھوڑ آیا ہوں ۔ معذرت کے ساتھ، اب یہ محض ایک چھٹی کا دن ہی رہ گیا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس حوالے سے اسلام آباد میں ایک شاندار پریڈ ہوتی ہے ۔ عقل و دانش کے اندھے بابوؤں کے نامزد کردہ افراد کو ستاروں،تمغوں سے نوازاجاتا ہے۔ چند کو چھوڑ کر چودہ اگست اور 23مارچ کو ایوارڈز کی تقریب بازاری زبان میں ایک ’’ریکٹ‘‘ بن گئی ہے۔14اگست اور23مارچ کو ان تمغوںا ور ستاروں کو اپنے گلوں میں ڈالنے اور گھروں میں سجانے کے لئے ہمارے بیشتر’’اہل دانش‘‘ کیسے کیسے جتن اور پاپڑ بیلتے ہیں۔اگر اس ذکر کی تفصیل میں چلا گیا تو سارا ’’کالم‘‘ہی کھا جائے گا۔23مارچ 1940ء کی قرارداد اور پھر اس کی بنیاد پر بننے مملکت خداداد پاکستان پہ جو کچھ گذری وہ ایک تفصیل طلب ،المناک داستان ہے۔ 1940کی لاہور قرارداد بلکہ اس سے بھی پہلے 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام بہرحال ایک سبق آموز تاریخ ہے۔1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جن بانیان نے اس کی بنیاد رکھی وہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد وہ مسلم قائدین تھے جو ایک صدی قبل ہی اپنے عملی مشاہدے اور تجربے سے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان ایک علیحدہ شناخت کے بغیر ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن نہیں ہوسکتے۔یہ بات بڑی دلچسپ بلکہ حیران کن ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح جو ایک ممتاز بیرسٹر کی حیثیت سے سارے ہندوستان میں پہچانے جانے لگے تھے ،ڈھاکہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔نوجوان جناح اس وقت تک مسلمانوں کی ایک علیحدہ جماعت کو ہندستان کی قومی یکجہتی اور بحیثیت ایک کمیونٹی نقصاندہ سمجھتے تھے۔ان کا یہ خیال تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس میں رہ کر ہی ہندوستانی مسلمان کو آزادی کی جنگ لڑنی چاہئے۔سومزیدتفصیل میں جائے بغیر 23مارچ1940ء پر آجاتا ہوں۔کہ جسے قرار داد پاکستان کہا جاتا ہے۔بہرحال اس 23مارچ1940ء کی قرارداد میں لفظ ’’پاکستان‘‘ کا ذکر نہیں تھا۔تاہم قرارداد میں جس طرح اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کسی ایسے آئینی پلان کو قبول نہیں کرے گی جس میں ہندوستا ن میں موجود مسلم اکثریتی ریاستوں کو مکمل آزادانہ حیثیت میں کام کرنے نہیں دیا جاتا۔قرارداد میں موجود اس ابہام کے باوجود اگلے دن سارے انڈین پریس نے 23مارچ کی قرارداد کو Pakistan Resolutionسے تعبیر کیا۔1940ء سے1947ء کے دوران ہندوستان کی آزادی جس سرد و گرم سے گذری اور اس میں جس طرح کانگریس میں موجود انتہا پسند قیادت کی ذہنیت کھل کر سامنے آئی ،اس کے بعد مسلم لیگ کے لئے کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں رہ گیا تھا۔کہ وہ پاکستا ن کے نام سے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کرے ۔جن علاقوں پر مشتمل پاکستانی ریاست کو 14اگست کو آزادی ملی ،اُن میں سب سے بڑا المیہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم تھی۔جس کے سبب جو دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی اس میں لاکھوں مسلمانوں کو آزادی کی بھینٹ چڑھانا پڑا۔بانی جماعت مسلم لیگ کی جمہوریت نوازی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ابھی قیام پاکستان کو سال بھی پورا نہیں ہوا تھا۔کہ پنجاب میں نواب ممدوٹ ،صوبہ سرحد میں ڈاکٹرخان صاحب اور سندھ میں ایوب کھوڑو کی منتخب صوبائی حکومتیں توڑ دی جاتی ہیں۔جس کے نتیجے میں بہر حال مسلم لیگ کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کو قیام عمل میں آنا ہی تھا۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جس شہر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا،اسی شہر میں بیالیس سال بعد عوامی مسلم لیگ کی بنیا د رکھی گئی۔جو بعد میں عوامی لیگ بنی۔جمہوریت دشمنی کا طعنہ فوجی حکمرانوں کو دیا جاتا ہے ۔مگر معذرت کے ساتھ ،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم محترم نوابزادہ لیاقت علی خان،اپوزیشن کی پہلی جماعت کے قیام پر کراچی میںمسلم لیگ کے ایک جلسے میں فرماتے ہیں کہ ــ’’جس نے بھی عوامی لیگ کا ساتھ دیا،میں اس کا سر توڑ دوں گا‘‘۔نوابزادہ جیسے معزز و محترم مسلم لیگی قائد کو جس طرح شہید کیا گیا۔پھر اُن کے قتل کے بعد جس طرح اقتدار کی بندر بانٹ ہوئی ،وہ اپنی جگہ خود ایک المیہ تھا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کے افکار و خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔مگر شہادت کے بعد ان کے ورثہ کے لئے کراچی کے شہر میں کوئی حویلی ،کوٹھی اور نہ ہی ملکی و غیرملکی اکاؤنٹ تھا۔بلاشبہ یہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی فوجی آمریت ہی تھی،کہ جس نے ایک بار پھر کنونشنل مسلم لیگ کے نام سے وردیو ں کی چھتر چھایہ میں زندہ کیا اورپورے ملک کو لوٹ مار کی کچرا منڈی بنادیا ۔ایوب خان کا دس سالہ طویل دور مسلم لیگ کے تابوت میں آخری کیل تھا۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے تیسرے اور چوتھے فوجی حکمرانوںکو بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے مسلم لیگ کی بیساکھی کو ہی استعما ل کرنا پڑا۔جنرل ضیاء الحق کے منہ بولے بیٹے میاں نواز شریف کو اس بات کا کریڈٹ اس حد تک دیا جائے گا کہ انہوں نے اسے ایک عوامی جماعت ضرور بنایا مگر یہ ہمیشہ جاتی امراء کے مکینوں کے گھروں کی لونڈی ہی رہی۔جس کا سبب آج یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف جب اپنی ہی جماعت کے دور میں جیل جاتے ہیں تو سڑکوں پر اتنے لوگ بھی نہیں ہوتے کہ کسی کی نکسیر پھوٹے۔آج تحریک انصاف کی حکومت ہے ۔معلوم نہیں خان صاحب کے بنی گالہ کے دوستوں اور ہر دور میں اقتدار کے ثمرات سے فیضیاب ہونے والے وزیروں ،مشیروں میں سے کتنوں نے قراردادِ پاکستان کا مطالعہ کیا ہوگا۔اس وقت تو ان سب کی یہ دوڑ ہوگی کہ 22مارچ کی شب کو ہونے والی تقریب کی پہلی صف میں کس طرح جگہ پائیں۔