پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں ضمنی انتخابات کی گہما گہمی تھی‘چھ سو سے زیادہ امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا دیے تھے اور انتخابی مہم زوروں پر تھی۔عدالتی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نگران حکومت اگلے تین ماہ میں الیکشن کروانے کی پابند ہے مگر پی ڈی ایم کی شدید خواہش کی وجہ سے الیکشن کمشن نے اکتوبر تک ملتوی کر دئیے ۔مجھے اس سیاسی گہما گہمی میں ایک رویے نے شدید حیران کیا‘ایک طرف حکومت اور سکیورٹی ادارے الیکشن ملتوی کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے جانب پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں انتخابی مہم بھی چلا رہی ہیں‘یہ کیسا دوغلا پن ہے۔اگر معاشی یا امن و امان کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے اور نون لیگ و دیگر جماعتیں انتخابات ملتوی کرنا چاہتی ہیں تو اپنے امیدواروں کو انتخابی مہم کی اجازت کیوں دے رکھی ہے اور یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اگر مریم نواز اور دیگر سیاسی قائدین کو انتخابی مہم کی اجازت ہے تو عمران خان کو سو سے زائد مقدمات میں کیوں الجھایا گیا ہے‘عمران خان کی انتخابی مہم کس لیے ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اگر تحریک انصاف کے امیدوار ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں تو نون لیگ کے مرکزی قائدین کی تقاریر کا گزشتہ تین سالہ ریکارڈ کوئی اتنا شاندار نہیں ہے اور اگر انتخابی مہم پر پابندی لگانا ہی مقصود ہے تو پہلے موازنہ کر لیا جائے تاکہ ’’مائنس ون ‘‘ فارمولا آسانی سے قابلِ عمل ہو سکے۔اداروں کا کام سیاسی امتیاز ختم کرنا ہوتا ہے‘اگر الیکشن کمیشن کا جھکائو ایک سیاسی جماعت کی طرف ہوگا تو پھر کیسے ممکن ہے یہ اہم ترین ادارہ ضمنی یا جنرل انتخابات شفاف طریقے سے کروا سکتا ہے؟موجودہ سیاسی جنگ و جدل میں الیکشن کمیشن کے کردار پر مسلسل سوال اٹھایا جا رہا ہے اور تحریک انصاف کے قائدین کے تحفظات غیر اہم نہیں ہیں۔ تحریک انصاف ایک طرف خوش کہ عدالت نے تین ماہ میں الیکشن کروانے کا حکم دیا ہے مگر دوسری جانب یہ پریشانی بہرحال موجود ہے کہ گزشتہ روز ہونے والا پی ڈی ایم کا اجلاس اسی ایک نکتے پر اکٹھا کیا گیا کہ الیکشن تین ماہ میں کروائے جائیں یا پھر ملتوی اور عمران خان کو مائنس کرنے کی تجویز بھی زیر غور رہی۔ ذرائع کے مطابق حکومت کے اپنے لوگوں نے مائنس ون فارمولے کی مخالفت کی اور دلیل انتہائی مضبوط تھی کہ اگر آج عمران خان کو سیاسی اختلافات کی بنیاد پر غدار یا دہشت گرد قرار دے کر ’’مائنس ‘‘کیا جاتا ہے تو یہ وقت پلٹا بھی کھا سکتا ہے لہٰذا ہمیں اس معاملے میں انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ عمران خان سے یہ اختلاف اپنی جگہ پر موجود ہیں کہ انھیں سیاست صرف انجوائے منٹ کے لیے نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ ایک سنجیدہ عمل ہے جس سے ملک کی تقدیر کا فیصلہ ہونا ہے۔عمران خان کی جماعت پہلے قومی اسمبلی سے مستعفی ہوئی‘پھر شور ڈالا کہ استعفے منظور کرو اور جب استعفے منظور ہو گئے تو اسمبلیوں میں واپسی کا واویلا شروع ہو گیا۔اسی طرح پہلے صوبائی اسمبلیوں میں اپنی حکومت لائے‘پھر ان سے استعفے دلائے اور اب پھر انہی صوبوں میں اپنی حکومت لانا چاہتے ہیں‘یہ رویہ اباعث حیرت ہے۔کیوں کہ الیکشن سے ملکی خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں‘چھے سو سے زائد امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم پر جو خرچہ کرنا ہے‘وہ اس سے الگ ہے یعنی الیکشن ٹریلینزکا خرچہ ہے۔ ضمنی انتخابات کی تیاروں میں ایک سوال مسلسل اٹھایا جا رہا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج عوام یا سیاسی جماعتیں قبول کریں گی یا نہیں؟سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے میرے دوست میری رائے سے متفق ہوں گے کہ ضمنی انتخابات ہو بھی جائیں تو ایک فساد برپا ہوگا جو نا قابلِ برداشت ہو جائے گااور اگر یہ انتخابات جیتنے کے بعد عمران خان دوبارہ اسمبلیوں سے مستعفی ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہوگا؟اس ساری صورت حال میں سیاسی مبصرین کی یہ رائے اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ موجودہ ضمنی انتخابات ملتوی کر کے پورے ملک میں ایک دفعہ ہی الیکشن کروائے جائیں تاکہ سیاسی عدم استحکام ختم ہو سکے‘سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف اگر کسی ایک تاریخ پر متفق ہو جائیں اور افہام و تفہیم سے ایک وقت مقرر کر لیں تو حالات بہت تبدیل ہو سکتے ہیں۔پی ڈی ایم کے مرکزی قائدین اگر ملک کے ساتھ واقعی مخلص ہیں اور عمران خان اگر سچے محب وطن ہیں تو اپنی ضد چھوڑ دیں‘دونوں گھروں کو جھکنا ہوگا‘دونوں گھروں کو آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے کسی درمیانی راستے پر پہنچنا ہوگا تاکہ منزل کا حصول ممکن ہو سکے ورنہ جو حالات نظر آ رہے ہیں‘اگلے پانچ دس سال بھی سیاسی عدم ا ستحکام نظر نہیں آ رہا۔سیاسی جماعتوں کو آپس میں اختلاف ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کیوں کہ اختلاف کسی بھی تعلق کا حسن ہوتا ہے مگر اختلاف میں ملکی اداروں کو یرغمال بنانا‘ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنا‘عوام کے ٹیکسوں کو ضائع کرنا حب الوطنی نہیں۔سیاست‘سیاست دانوں کو ہی زیب دیتی ہے‘اختلاف سیاست دانوں میں ہوتا رہتا ہے اور اختلاف کی بنیاد پر ہی الیکشن جیتا جاتا ہے مگر یہ اختلاف جب حد سے بڑھ جائے تو پھر تیسری طاقت اپنا راستہ بنا لیتی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب جب سیاسی ماحول انارکی کی جانب بڑھا‘ملک مارشل لاء کی زد میں آ گیا جس کا نقصان بہرحال پاکستان اور عوام کو ہوا۔کیا ہماری سیاسی انا اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہم عمران خان کو دیوار سے لگانے کے لیے پاکستان کی ساری طاقت لگانے پر مجبور ہو گئے اور عمران خان کو بھی سوچنا ہوگا کہ اسے اپنی انا‘تکبر اور غرور اتناعزیز ہے کہ اس نے ملکی سلامتی اور ساکھ کی بھی پرواہ نہیں‘یہ رویہ کسی جانب سے بھی ہو‘ناقابل ِ قبول اور افسوس ناک ہے۔ملک اداروں اور سیاست دانوں سے ہی چلتے ہیں اور جب ادارے اور سیاسی جماعتیں آمنے سامنے آ جائیں تو درمیان میں عوام پس جاتے ہیں‘خدارا !عوام پر ہی رحم کر لیں اور جنرل الیکشن کے لیے مل بیٹھیں اور کسی مثبت راستے کا انتخاب کریں تاکہ ملک سلامتی کی جانب بڑھے۔