کل سے مجھے نظیر اکبر آبادی کا یہ شعر بے طرح یاد آرہا ہے۔ یوں جانئے کہ اس کے مفاہیم ہی کچھ کل سے آشکار ہوئے ہیں۔ جتنے سخن ہیں‘ سب میں یہی ہے سخن درست اللہ آبرو سے رکھے اور تندرست غالب گوکہ یگانہ روزگار شاعر تھا مگر کسی شدید نوعیت کی بیماری سے اُس کا واسطہ تازیست نہ پڑا۔ وہ تو بس عمر بھر عسرت و تنگدستی سے پنجہ آزمارہا۔تنگدستی بھی بری شے ہے مگر صاحب! صحت بڑی نعمت ہے۔ پیر کی انگشتِ نر سے لے کر، سر کے بالوں تک اگر آپ کے جسم کا کوئی عضو تکلیف میں مبتلا نہیں، کوئی ایسی اندرونی اذیت بھی نہیں کہ جو بدن کے ساتھ ساتھ روح کو بھی ہراساں کئے رکھے تو آپ ایک خوش قسمت انسان ہیں۔ حکمرانی، انسانوں اور زمین کے ٹکڑے پر قابض ہونے کانام نہیں۔آپ کے اعضائے جسمانی اگر آپ کے قبضۂ قدرت میں ہیں تو آپ سے بڑا حکمران کوئی نہیں۔ اگلے روز دو احباب کو دیکھنے نشتر ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں جانا ہوا تو جہاں زندگی سے بھرپور دوستوں شاہنواز ارشد اور اقبال شیخ کو بے حرکت و بے سدھ پڑا دیکھ کر دل دکھ اور کچھ نہ کرسکنے کی بے بسی سے بھرگیا‘ وہیں یہ تندرستی کو ہزار نعمت قرار دینے والی ضرب المثل میں پوشیدہ لوک دانش کی حقانیت بھی واضح ہوئی۔ دونوں ہی صحافی اور حد درجہ فعال و متحرک۔ ایک دم سے برین ہیمبرج اور حرکت ختم۔ پچھلے پیراگراف اور اس پیراگراف کے وقت ِتحریر میں بارہ چودہ گھنٹے کا فرق ہے۔یہاں تک لکھ پایا تھا کہ ملک فیاض اعوان کا فون آیا’’صاحب! شاہنواز ارشد اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں‘‘۔ دَم کے دَم کو گردوپیش دھندلا سے گئے۔ بس پھر لکھا نہیں گیا۔ کل ہی تو میں اور فیاض اعوان اُن کو دیکھ کر آئے ہیں۔ بے ہوش تھے اور مسلسل چھ روز سے بے ہوش مگر اُن کے بھائی عبدالغفار نیئر بڑے پُر امید تھے۔ بتانے لگے’’ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ کومے میں نہیں ہیں، صرف بے ہوش ہیں، یہ اچھی علامت ہے۔ چھ دن کے بعد آج خوراک بھی لی ہے‘‘۔ ایک امید بندھی یہ سن کر وسیب کا صحافی، شاعر اور کالم نگار، بحالی کی طرف گام زن ہوا۔ مگر اب اُن کی رحلت کا سن کر لگتا ہے کہ بجھنے سے پہلے چراغِ سحری جو پھڑ پھڑاکر قدرے سِوا لَو دیا کرتا ہے، یہ دراصل وہی لَو تھی۔ شاہ نواز ارشد بھکر کے قصبہ دُلے والا میں ایک قومی اخبار کے نامہ نگار تھے۔ شاعری بھی کرتے تھے اور کالم نگاری بھی ۔ سوشل میڈیا نے مکانی بُعد ختم کردئیے ہیں سو رابطہ مسلسل تھا۔ پھر ملتان کے سالانہ سرائیکی مشاعروں اور دیگر تقاریب میںبھی ملاقات رہی۔ کیا خوب صورت، محبت کرنے والا انسان تھا شاہنواز ارشد۔ میرے واٹس ایپ میں آخری میسج مئی کی اکیس تاریخ کا ہے جب انہوں نے لاہور میں میری کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شرکت سے ذاتی مصروفیات کی بنا پر معذرت کی اور ایک پیراگراف کتاب بارے لکھ کر بھیجا جو بعد میں انہوں نے سوشل میڈیا پر بھی چسپاں کیا۔ لاہور میں وہ میری پچھلی کتاب کی تقریب میں تشریف لائے تھے۔ پہلی ملاقات اُن کے ساتھ وہیں ہوئی تھی۔ بڑی ہی بے اعتبار شئے ہے یہ زندگی صاحب۔ ساتھ چلتے چلتے یوں ایک دم سے آنکھیں ماتھے پر رکھ کر اپنی راہ اس خاکی جسم سے الگ کرلیتی ہے کہ لاکھ پکارو، مڑ کے دیکھتی تک نہیں۔ فیس بک پر اُن کی آخری پوسٹ پندرہ اگست کی ہے۔ ایک ڈیرہ ہے جس کے صحن میں چارپائیاں بچھی ہیں اور چاردوست گائو تکیوں کے سہارے نیم دراز ہیں۔ کیپشن یوں لکھا ہے ’’ ساون کے آخری دنوں کی بارش کے بعد عصر کے وقت انگڑائیاں لیتے موسم کا لطف لینے کی کوشش۔ ملک محمد یعقوب جھمٹ اور غضنفر عباس جھمٹ کے ساتھ۔ میزبان عبدالحمید جوئیہ کی طرف سے دیسی گھی میں دیسی مرغی کا تکلف‘‘۔ شاہنواز کو بس شاید ساون کے ختم ہونے کا ہی انتظار تھا۔ بھادوں کا پہلا دن اُن پر بے ہوشی کے عالم میں طلوع ہوا اور بھادوں کی سات تاریخ کو وہ بے ہوشی ہی میں نامعلوم دنیائوں کا سفر کرگئے۔ صابر عطا تھہیم نے کل ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں شاہنواز ارشد اپنا لکھا ہوا ایک گیت گنگنارہے ہیں۔ توں رو رو یاد کر باہسیں اساں وَل آونڑا کوئی نئیں ولا منت کرنڑ آسیں اساں وَل آونڑا کوئی نئیں کہیں اینجھی جاہ تے ونج باہسوں نہ تیکوں وَت نظر آسوں کیں بئی دنیا دے وچ راہسوں اساں وَل آونڑا کوئی نئیں (تم رو رو کر یاد کرو گے۔(ہماری قبر پر آکر) منت کروگے لیکن ہم نہیں آئیں گے۔ ہم کسی ایسی جگہ جابیٹھیں گے جہاں تم ہمیں نہ دیکھ پائو گے۔ کسی جہانِ دیگر میں رہیں گے، واپس نہیں آئیں گے) یہ کالم لکھنا شروع کیا تو نیت یہ تھی کہ شاہنواز ارشد اور اقبال شیخ کی بیماری کا بتا کر پڑھنے والوں سے دعا کی درخواست کروں گا۔ میرے سان گمان میں نہ تھا کہ اس کالم کو شاہنواز ارشد کے لئے دعائے مغفرت پر ختم کرنا پڑے گا۔ اقبال شیخ بھی برین ہیمبرج کا شکار ہوئے اور دو ماہ سے بستر پر ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اقبال شیخ کو صحت کی دولت سے مالامال کرے اور شاہنواز ارشد کو اپنی رحمتوں کی ٹھنڈی چھائوں میں جگہ عطا فرمائے۔ بھِرا شاہنواز! جیہڑی دنیا ئِ چ ونج وسیں، شالا سُکھ تیڈے سنگتی ہوون۔ ٭٭٭٭٭