گذشتہ اتوار کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس ، کانفرنس کیا تھی ، بے شمار تضادات کا مجموعہ تھی۔ آپٹکس، بیانات اور اقدامات، سبھی اعتبارسے تضادات ہی تضادات دکھائی دے رہے تھے۔ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے والے بھائی بھائی بنے بیٹھے تھے ، اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر کے حکومتیں کرنے والے سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تقریریں کرتے دکھائی دے رہے تھے اور مولانا کے تو کیا کہنے ، ان کے اندر تو اسمبلیوں سے استعفے دینے کی خواہش ایسی جاگی ہے کہ انہیں کچھ اور سجھائی ہی نہیں دیتا۔ ایک نظر ڈالنے میں کیا ہرج ہے کہ اس آل پارٹیز یا ملٹی پارٹیز کانفرنس میں کون کون سے تضادات یوں بڑے بڑے دکھائی دے رہے تھے جیسے محدب عدسے سے دیکھے جا رہے ہوں۔ شہباز شریف پاکستان کے ایک ایسے شخص کے ساتھ کندھا ملائے بیٹھے تھے جسے وہ پاکستان کا سب سے زیادہ کرپٹ آدمی سمجھتے رہے ہیں۔ جس کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ وہ زر بابا ہیں اور اپنے چالیس رفقاء کے ساتھ مل کر پاکستان کو لوٹنے میں ملوث رہے ۔ جن کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اقتدار میں آ کر وہ ان سے لوٹا ہوا مال برآمد کریں گے ، انہیں لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے حتیٰ کہ ان کا پیٹ پھاڑ کے کھایا ہوا پیسہ نکال لیں گے۔ اب میاں شہباز شریف اسی آصف زرداری کے ساتھ بیٹھ کر جمہوریت کے استحکام کے لیے کام کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں ۔ کیامیاں شہباز شریف یہ بتانا پسند کریں گے کہ انہیں ان کے بقول ایک کرپٹ انسان کے ساتھ بیٹھ کر شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی؟ اس ملٹی پارٹیز کانفرنس کا دوسرا سب سے بڑا تضاد ن لیگ کے تا حیات قائد نواز شریف کی تقریر تھی جس میں وہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے نظر آئے۔ ان کے بقول انتخابی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی عدم مداخلت یقینی بنائی جانی چاہیے۔ دوسری جانب شہباز شریف خود اقرار کر چکے ہیں کہ وہ الیکشن سے پہلے طاقتور حلقوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی کابینہ کے لوگوں کے نام تک فائنل کر چکے تھے ، بعد میں شاید ڈیل انجام کو نہ پہنچ سکی ۔ شہباز شریف کیا بتانا پسند کریں گے کہ تب وہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو بھول گئے تھے کیا؟ اس کانفرنس کا تیسرا تضاد بھی نواز شریف کی تقریر سے متعلق تھا۔ اپنی تقریر میں وہ بالکل واضح تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے آرمی چیف کی مدت میں ایکسٹنشن کے معاملے پر اپنے اصولی موقف کی قربانی کس مفاد میں دی؟ شہباز شریف کیا بتانا پسند کریں گے کہ اپنی قیادت اور کارکنوں کو ناراض کرنے کی قیمت انہوں نے کیا وصول کی اور اپنے نظریے سے پیچھے کیوں ہٹے؟ اس آل پارٹیز کانفرنس کے دورن ایک اور بہت بڑا تضاد مولانا فضل الرحمن کی شخصیت اور موقف میں نظر آیا۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت اسمبلیوں سے استعفے دینے کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ مولانا فضل کچھ سال پہلے پرویز مشرف کے زمانے میں قائد حزب اختلاف ہوا کرتے تھے۔ ایک صوبے میں ایم ایم اے کی حکومت تھی اور وزیر اعلی کا تعلق بھی جے یو آئی سے تھا۔ تب حکومت سے شدید اختلافات اور مشرف رجیم پر دبائو ڈالنے کے لیے قاضی حسین احمد اسمبلیوں سے استعفے دینے حامی تھے۔ لیکن تب مولانا فضل الرحمن قائد حزب اختلاف اور صوبے میں اپنی حکومت کی قربانی دینا نہیں چاہتے تھے ، لہذا انہوںنے نظریے کی قربانی دی اور اسمبلی کی سیٹیں بچا لیں جبکہ قاضی حسین احمد ان سے ناراض ہو گئے ۔ آج شہباز شریف ، بلاول بھٹو اور آصف زرداری اپنی سیٹیں بچانا چاہتے ہیں اور مولانا ناراض ہو رہے ہیں۔ کوئی ہے جو مولانا کو ان کا ماضی یاد دلائے اور پھر پوچھے کہ حضور آپ اگر خود پارلیمنٹ کا حصہ ہوتے تو کیا استعفیٰ دینے پر راضی ہو جاتے ؟ نواز شریف کی تقریر بھی تضادات کا مجموعہ تھی ۔ اس میں تصویر کا ایک رخ دکھایا گیا تھا۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بار بار نکالے جانے کا دکھ تو بیان کیا لیکن اسٹیبلشمنٹ کے سہارے سیاست میں قدم رکھنے اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کی کہانی نہیں سنائی۔ نواز شریف نے یہ نہیں بتایا کہ کس طرح وہ بار بار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرتے رہے، کبھی اقتدار میں آنے کے لیے اور کبھی ملک سے باہر جانے کے لیے ۔ اس ملٹی پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں بھی کچھ تضادات ہیں۔ مثلا ایک طرف تو عمران خان کوفوری طور پر استعفیٰ دینے کا کہا گیا ہے اور دوسری طرف معیشت کو ٹھیک کرنے اور سی پیک پر کام تیز کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیا ہے ۔ یعنی اگر عمران خان نے استعفیٰ دینا ہے تو وہ یہ سب کام کیوں کرے گا اور اگر یہ سب کام کرنے ہیں تو اسے استعفیٰ دینے کی کیا ضرورت ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر عمران خان سے استعفیٰ ہی لینا ہے تو پھر اعلامیہ ایک نکتہ پر ہی مشتمل ہوتا۔ گویا اعلامیہ جاری کرنے والوں کا خود بھی خیال یہی ہے کہ عمران خان نہ تو استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی ان سے لیا جا سکے گا۔ نواز شریف کے خواجہ حارث کی طرف سے البتہ ایک ایسا قدم اٹھایا گیا ہے جسے ان کا اصولی موقف یا فیصلہ کہا جا سکتا ہے ۔ خواجہ حارث نے عدالت کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ وہ ایک مفرور شخص کی وکالت نہیں کرنا چاہتے۔ جسٹس محسن اختر کیانی کے استفسار پر بھی ان کے پیغام رساں نے بتایاکہ ایک شخص جو مفرور ہو چکا ہے وہ اس کی وکالت کس طرح کریں گے۔ ثابت یہ ہوا کہ خواجہ حارث صاحب کے ضمیر نے انہیں اکسایا ہے کہ وہ اپنی وکالت کو داغ دار نہ ہونے دیں اور نواز شریف کی ضمن میں اصولی فیصلہ کریں۔