میں نے نومبر میں تقریباً دو ہفتے کا امریکہ کا دورہ کیا۔ اسی دوران امریکہ میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں سے امریکہ کی پالیسوں پاکستان اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جہاں بہت سارے سوالات کئے اورخود بھی چلتے پھرتے بہت سارے مشاہدات کئے، جن کے کئی پہلو ہیں۔ بہت ساری مثبت باتیں بھی ہیں ،ان کالموں میں کوشش کروں گا کہ اس کا مختصر سا احاطہ کروں۔ امریکہ سے باہر یا تھرلڈ ورلڈ ممالک میں رہتے ہوئے جب امریکہ کا ذکر ہوتا ہے تو امریکہ کو اس کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہی جانا جاتا ہے۔ یہ واحد سْپر پاور ہے جو دنیا میں غریب ممالک کو یا تو اقتصادی پابندیوں اور قرضوں میں جکڑے رکھتی ہے یا پھر جنگ وجدل کشت و خون بالواسطہ یا بلاواسطہ کروا تی ہے۔ امریکہ اپنے موافق حکومتیں قائم و تبدیل کرواتا ہے ،کبھی فوجی اور کبھی سول آمروں کی حمایت کرتا ہے جو اس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ جو ممالک بھی دنیا میں امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف چلتے ہیں وہ مشکلات کا ہی شکار رہتے ہیں، چونکہ مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ 9/11 کے بعد جو کچھ افغانستان ،پاکستان، عراق ،ایران لیبیا، مڈل ایسٹ میں ہوا اس میں ہر جگہ امریکہ کی براہ راست مداخلت نظر آتی ہے، خصوصاََ ان ممالک کی حکومتوں کی تبدیلیاں بھی امریکہ کے اشاروں پر کی گئی ہیں۔ دنیا میں اس کا ردعمل بھی بہت شدید آتا ہے لیکن یہ ردعمل آسمان کی طرف پتھر پھینکنے کے ہی مترادف ہے۔ بیرونی ممالک میں امریکہ کا اپنا بھی جانی اور مالی بہت نقصان ہوتا ہے۔ دنیا میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے بھی امریکہ کا ہی سب سے زیادہ کردار رہتا ہے، ساتھ میں امریکہ پر یہ بھی الزام درست عائد کیا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری میں بھی امریکہ جانبداری روا رکھتا ہے۔ دوست ممالک کی جانب سے اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روا رکھی جا رہی ہوں تو امریکہ کے لئے کوئی خاص پریشانی کا باعث نہیں ہوتا، اسی لئے مسلم دنیا کی عام آبادی میں امریکہ کے خلاف آج بھی نفرت سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینیوں مسلمانوں کا خون تواتر سے جب بھی بہتا ہے تو امریکہ کو سب سے زیادہ گالیاں پڑتی ہے، دہشتگردی کی جنگ میں افغانستان پر جس طرح بم برسائے گئے پاکستان میں جس طرح ڈرون اٹیک ہوئے، جانی و مالی نقصان ہو وہ اسکی ایک مثال ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ 75 سالوں سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں، اقوام متحدہ جو براہ راست امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کیا کریں، ڈیڑھ لاکھ کشمیری بھارت کی سیکورٹی فورسز نے قتل کردیئے ،جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ کے ساتھ دوستی نہ صرف مسلم یا تھرڈ ورلڈ یا عرب ممالک بلکہ یورپین کی بھی مجبوری ہے۔ چونکہ عالمی مالیاتی ادارے امریکہ کنٹرول کرتا ہے اور دنیا کے اپنے اپنے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اس لئے سارے امریکی نواز ممالک کا میڈیا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی لائن فالو کرتا ہے پاکستانیوں کیلئے افغانستان جنگ اور افغانستان سے امریکہ کے انخلاکے بعد جو بڑا اپ سیٹ ہوا ہے وہ موجودہ رجیم چینج آ پریشن ہے جس پر پاکستان کی بدنصیب عوام اورقیادت کی بے بسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن جہاں امریکہ کی جانبدارانہ پالیسیوں پر دنیا میں اس کو از خود بہتری لانی چاہیئے وہاں ناہمواریوں ناانصافیوں کے خلاف اپنے اپنے ملکوں میں پرامن احتجاج ریکارڈ کرواتے رہنا چاہیئے۔ پرامن احتجاج کی جمہوری معاشروں میں نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسی تناظر میں وائٹ ہاؤس کے باہر ایک احتجاجی کیمپ لگا ہوا جو امریکہ کے ایٹم بم کے خلاف 41 سالوں سے جاری ہے۔ اب وہاں کل وقتی دھرنے دینے والے کا نام فلپوس ہے جس سے میری ملاقات بھی ہوئی ۔یہ احتجاجی دھرنا 1981 میں ولیم تھامس مرحوم نے شروع کیا تھا جس میں مستقل طور پر بیٹھنے والے سردی اور بیماریوں سے وفات پا چکے ہیں ۔فلپوس کا کہنا تھا کہ نہ صرف امریکہ سمیت جن ملکوں کے پاس بھی ایٹم بم ہیں ،دنیا کے کے لئے خطرہ ہیں۔ ہم پاکستانی دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں پہلے تو اپنی گزر اوقات کے لئے سخت محنت مزدوری کرتے ہیں جب وہاں پائوں پر کھڑے ہوتے ہیں تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہوئے گھومتے پھرتے جو کچھ نظر آتا ہے اس کو انجوائے کرنے کے بجائے پاکستان سے موازنہ کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے خود ہی پریشان ہوتے ہیں اور پاکستان میں رہنے والوں کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان سے باہر لوگ کس طرح رہتے ہیں اس امید پر کہ شاید کچھ ہمارے ملک میں بھی کچھ بدل جائے۔ امریکن پاکستانی جو امریکہ کی شخصی آزادیوں جمہوریت رول آف لاء اور مساوات سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں جب میں نے پوچھا کہ امریکہ غریب ملکوں پر بم کیوں برساتا ہے اقتصادی پابندیاں کیوں عائد کرتا ہے امریکہ دوسرے ملکوں کی حکومتیں تبدیل کرکے باہم قوموں میں خانہ جنگی کیوں شروع کروا دیتا۔ امریکہ کی 80 فیصد آبادی امریکہ کی فارن پالیسی سے لاتعلق کیوں رہتی ہے۔ 85 فیصد آبادی نے امریکہ سے باہر کیوں سفر ہی نہیں کیا ۔بعض سوالوں کے جواب ملے اور بعض سوالوں کے جوابات میں نے خود تلاش کیئے۔ بہرحال یہ جان کر خوشی ہوئی کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی امریکہ کی فارن پالیسی سے دل سے خوش نہیں لیکن ان کی وفاداری جتنی امریکہ سے ہے اس سے بڑھ کر پاکستان سے بھی ہے۔ سب کا یہی جواب تھا کہ امریکہ کی فارن پالیسی اپنے مفادات کے تحفظ کے گرد کھومتی ہے ہر آزاد ملک کو اپنے مفادات کے تحت اپنی فارن پالیسی اختیار کرنے کا حق ہے۔(جاری ہے)