پچھلے سال کے اقتصادی جائزے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے اٹھاون فیصد بچے غذائی قلت اور انتیس فیصد وزن کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ بچے جوانی کی دہلیز تک مشکل سے پہنچ پائیں گے، پہنچ بھی گئے تو انہیں جلد ہی بڑھاپا دبوچ لے گا معاشرے کے لیے انکی افادیت تو کیا ہونی ہے، بوجھ ہونگے۔دوسری طرف جوانی کی دہلیز پر پہنچنے والی ستاون فیصد بچیاں اور بیالیس فیصد زچگی کی اہل عورتیں خون کی کمی کا شکار ہیں۔ مجموعی طور پر اٹھارہ فیصد آبادی (تین کروڑ اسی لاکھ) شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ پچاس فیصد بیماریاں اور چالیس فیصد اموات آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ عوام پر بیماری کے بوجھ کی دو وجوہات نہایت واضح ہیں:آلودہ پانی اور بھوک۔ یہ دونوں عوامل خود ساختہ ہیں۔ ان دونوں عوامل کی بنیادی وجہ برطانوی ہند کا ترقیاتی ماڈل ہے جس کے تحت جنگلات کاٹ کر نئے رقبے نکالے گئے، دریاوں سے نہریں نکال کر بنجر زمینیں آباد کی گئیں۔ دریا کنارے آباد لوگ جو مچھلی اور گلہ بانی پرگزر اوقات کرتے تھے ایسے در بدر ہوئے کہ آج تک آباد نہیں ہو سکے۔۔ جہاں نہریں پہنچیں وہاں پر زیر زمین پانی پہلے کڑوا تھا، کاشتکاری میں کھادوں اور ادویات کے استعمال سے اب یہ زہریلا بھی ہوچکا ہے۔ میٹھے پانی والے علاقوں کا بھی یہی حال ہے۔ اب وہ دور تو نہیں رہا کہ کچن میں موجود ہلدی ، اجوائن ، سونف اور پودینہ انسان کو صحت مند رکھ سکیں۔ نہ تو پانی صحیح ہے اور نہ ہی دودھ ،دہی۔ معیاری گھی ، دالیں اور اجناس نا پید ہیں۔ استعمال کرلیں تو غذائی فائدے سے محروم رہیں گے۔ مطلب بیماری مقدر ہوچکی ہے۔ مریض بھاگم بھاگ ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے۔انجکشن سے درد میں آفاقہ ہوپاتا ہے، بیماری اپنی جگہ پر رہتی ہے۔ ڈاکٹر مریض سے فیس لیتا ہے اور ادویہ ساز کمپنی سے کمیشن۔ کمیشن اس لیے کہ ڈاکٹر کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی نسخے کی کونسی دوائی لکھتا ہے۔ کمپنیاں کمیشن اس لیے دیتی ہیں کہ کہ انکی دوائی جتنی زیادہ بکے گی کمپنی کو منافع اتنا زیادہ ہوگا۔ اس منافع سے یا تو ادویات کی مزید فیکٹریاں لگیں گی اور مارکیٹنگ کا دائرہ کار بڑھے گا ۔ بیرونی کمپنی کی صورت میں یہ منافع کسی دور دراز کے ملک منتقل ہوجاتا ہے۔ یوں صحت کے ایک سرے پر مریض ہے اور دوسرے پر ادویہ ساز کمپنیاں۔ ڈاکٹر دونوں کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔ وہ اپنی آمدنی بڑھانا اور راتوں رات امیر بننا چاہتا ہے۔ایسا معاشرہ جہاں لوگوں کی آمدنیوں میں زمین و آسمان کا فرق ہو وہاں صحت جیسے معاملات کو اگر طلب و رسد کے توازن پر چھوڑدیا جائے غریب اور متوسط طبقہ کہاں جائیگا؟ غریب لوگ پہلے تو عطائی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھتے ہیں اور بعد ازاں سرکاری ہسپتالوں میں رْلتے ہیں جہاں نہ تو تربیت یافتہ عملہ ہے اور نہ ہی بسترے اور ادویات۔ صحت کے شعبے پر حکومت کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس شعبے پر مجموعی قومی آمدنی کا ایک عشاریہ دو فیصد خرچ ہوتا ہے جبکہ اس حوالے عالمی ادارہ صحت کی تجویز پانچ فیصد کی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ صحت کے شعبے کی نگہداشت کے لیے کوئی مربوط نظام نہیں ۔ نہ ہی بیماریوں پر تحقیق ہوتی اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کونسی ادویات ضروری ہیں اور کونسی نہیں۔ پروفیشنل لوگوں، بشمول ڈاکٹرز، کی آمدنیاں ٹیکس سے مبرا ہیں۔ ماہرین صحت نسخہ نہیں لکھتے دوائی کا نام لکھتے ہیں اور اگر وہ کسی سرکاری ہسپتال میں ملازم ہیں تو انکی نجی پریکٹس پر پابندی نہیں ہے۔ صحت کا نظام ضلعی سطح پر نافذ ہے لیکن ڈوریں سیکڑوں میل دور صوبائی مراکز سے ہلتی ہیں کہ منتخب مقامی حکومتیں نہیں ہیں۔ کم ازکم سندھ اور پنجاب، جہاں اسی فیصد سے زیادہ ملکی آبادی ہے، اسکی صورتحال یہی ہے۔ غذا کا معاملہ ہو یا ادویات کا ، اس پر مافیا کا کنٹرول ہے۔ لے دے کر گندم ہی بچی تھی بھوک مٹانے لیکن اب آٹا کم کم ازکم سو روپے کلو مل رہا ہے۔ گھی ، دودھ اور دہی مہنگے ہیں، خرید بھی لیں تو پتہ نہیں کہ خالص بھی ہیں یا نہیں۔ آبادی ہے، اشیائے صرف کی طلب ہے اور منافع ہے۔ مافیا پیسے بنانے کے چکر میں ہیں تو اس پر ہاتھ ڈالنے والے بھی۔ اس ساری صورتحال کی جھلک سرکاری اداروں، خاص طور پر بنیادی نوعیت کی خدمات پہناچانے والے، میں کرپشن اور بد انتظامی کی صور ت میں جھلکتی ہے۔ اب یہ سمجھنے والی بات ہے کہ اگر ادارہ جاتی کارکردگی بہتر ہوتی ہے ، آئین و قانون کی عمل داری کا ماحول بنتا ہے اور بدعنوانی احتساب کے چنگل میں پھنستی ہے تو عوام کا تو بھلا ہوگا لیکن ، مافیا کی چھٹی ہوجائیگی۔ ظاہر ہے ،الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ الزام دیں تو کس کو؟ شہروں اور فیکٹریوں کی غلاظت کو آبی گزرگاہوں میں بہنے سے کس نے روکنا ہے؟ شہری آبادی کے بے ہنگم پھیلائو پر پابندی کس نے لگانی ہے؟ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نہری نظام کو خطرہ لاحق ہے،حالیہ مون سون سے ہونے والی سب سے زیادہ تباہی ڈیموں کے ٹوٹنے سے ہوئی ہے لیکن حکمرا نوں کی پانی کے ذخیرو ںاور توانائی کے متبادل ذرائع کی طر ف توجہ ہی نہیں ۔ دریاوں کے نیچے صاف پانی کا ذخیرہ (چار سو ملین ایکڑ فٹ ) موجود ہے جس سے انسانی آبادی کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں لیکن اس طرف توجہ کس نے دینی ہے؟ خطہ پاک (وادی سندھ)میں گندم کی کاشت کو فروغ دے کر اسے برطانوی ہند کا اناج گھر بنانے کے لیے دریاوں پر بند باندھنے، انکا رخ موڑنے اور نہری نظام کھڑا کرکے یہاں پائیدار معیشت اور غذائی تحفظ کے عوامل (تازہ مچھلی ،دالیں ، روغنی بیج ، گلہ بانی اور جنگلات) کو تہس نہس کیا گیا۔ بیرونی حکمرانوں کو رخصت ہوئے سات دہائیاں بیت گئیں لیکن تاریخ کا رخ کون موڑے گا؟ پانی کو پاک وصاف رکھنے کا بندوبست کردیں ، مہنگی گندم پر مرتکز زراعت بانوے فیصد پانی کے وسائل استعمال کر رہی ہے۔کچھ لائیو سٹاک ، مچھلی اور جنگلات کے لیے بھی چھوڑ دیں۔بھوک اور بیماری کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے!