اسلام آباد(نامہ نگار،سپیشل رپورٹر،92 نیوز رپورٹ،صباح نیوز)قرضوں کی تحقیقات کیلئے حسین اصغر کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ تیار کر لی جس میںسنگین بے ضابطگیوں اور کرپشن کا انکشاف ہوا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان چینی اور آٹا سکینڈل رپورٹ کے بعد مزید متحرک ہو گئے اور قرض انکوائری کمیشن کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے ۔ذرائع کے مطابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کو قرض انکوائری کمیشن کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران لئے گئے قرضوں سے متعلق یہ انکوائری رپورٹ آئندہ ہفتے وزیر اعظم دفتر میں داخل کردی جائیگی ۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں گزشتہ دس سالوں کے دوران لئے گئے قرضوں کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا جو 2008ء سے 2018ء تک قرضوں میں 24 ہزار ارب روپے اضافہ کیوں اور کیسے ہوا کی انکوائری کریگا۔ انکوائری کمیشن آن ڈیٹ (آئی سی او ڈی ) میں چونکا دینے والی تفصیلات موجود ہیں ۔ کوئی 2درجن اداروں سے وابستہ 300 افراد نے 2008 سے 2018 کے درمیان لئے گئے اربوں روپے کے غیر ملکی قرضوں کا غلط استعمال کیا ۔ ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ ظاہر کر نے کی شرط پر بتا یا کہ اس جامع، اہم اور خفیہ رپورٹ کو تیار کر نے میں 9 ماہ کا عرصہ لگا ۔رپورٹ میں کئی ترقیاتی منصوبوں میں کک بیکس ، اختیارات کے ناجائزاستعمال ، بڑے پیمانے پر خورد برد اور چوری کی نشاندہی کی گئی ہے ۔کمیشن نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ قرضوں کی مد میں پیسہ کس طرح مشکوک انداز میں سرکاری افسروں ، پرائیویٹ کنٹریکٹرز ، سیاستدانوں اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار حکومت میں وزراکے نجی اکائونٹس میں منتقل ہوا؟انکوائری کمیشن نے 23 اداروں سے وابستہ 200 اہم شخصیات کی نشاندہی کی جنہوں نے 220 نجی اکائونٹس کے ذریعہ 150 منصوبوں سے 450 ارب روپے کی منتقلی کیں ،ان میں سے کچھ کی وفاداریاں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے بتائی جا تی ہیں ۔انکوائری کمیشن کو انکوائری ایکٹ کے تحت حکومت کے حاصل کردہ 420 غیر ملکی قرضوں کا مکمل ریکارڈ حاصل ہو گیا ہے ۔تمام وفاقی وزارتوں ، ڈویژنوں اور محکموں سے ریکارڈ کے حصول میں 40 سینئر حکام نے کمیشن کی مدد کی ۔ سفارشات کو 6 درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔میوچوئل لیگل اسسٹنس کیلئے کمیشن کو حکومتی مدد درکار تھی تا کہ چند لوگوں کے بارے میں غیرملکی دائرہ اختیار سے معلومات حاصل کی جا سکیں ۔ اے جے پی ، ایف بی آر ، ایف آئی اے ، سٹیٹ بینک،سیٹ ریکوری یونٹ اور مختلف وزارتوں سے وابستہ سنیئر افسروں کے مطابق 8 اگست 2019 کے بعد قرضوں کے ذریعہ ترقیاتی منصوبوں کی جانچ پڑتال کیلئے 175 نجی و سرکاری حکام سے مدد لی گئی ۔کچھ متنازعہ سمجھے جا نیوالے پراجیکٹس پر انکوائری کمیشن کی خاص توجہ رہی۔جیسے بی آر ٹی پشاور جس کی لاگت 30 ارب روپے سے بڑھ کر 75 ارب روپے اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جس کی لاگت 84 ارب روپے سے بڑھ کر 500 ارب روپے تک جاپہنچی ۔ کمیشن نے سرکاری قرضوں اور واجبات میں اضافوں کا بھی جائزہ لیا جو 2008 میں 6690 ارب روپے سے بڑھ کر ستمبر 2018 تک 30846 ارب روپے ہو گئے ۔کمیشن نے 2008 سے 2018 تک 1020 منصوبوں کی تفصیلات حاصل کیں ۔کچھ بڑے پراجیکٹس جو کمیشن کے تحت جانچ پڑتال کی زد میں آئے ان میں منگلا ڈیم توسیع،رحیم یار خان ، چشتیاں ، وہاڑی ، گجرات ، شالیمار ، کے وی ٹی لائن ، دیامر بھاشا ڈیم ، گومل زام ڈیم ، پٹ فیدر کنال کی توسیع ،شادی کور ڈیم کی تعمیر اور گوادر کے 60 ترقیاتی منصوبے شامل ہیں ۔انکوائری کمیشن نے جن منصوبوں کی تفصیلات حاصل کیں ان میں پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے 25 ، لواری ٹنل سمیت مواصلات کے 85 منصوبے شامل ہیں ۔ اسی طرح پورٹس اینڈ شپنگ اور ریلوے کے 56 ، ایچ ای سی کے 285 ، صحت سے متعلق 78 ، آئی ٹی کے 203 اور دیگر محکموں اوروزارتوں کے منصوبے شامل ہیں۔