اسلام آباد(سہیل اقبال بھٹی)وفاقی حکومت کی ہدایت پر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قرضہ انکوائری کمیشن نے 24ہزار ارب روپے کے ملکی وغیرملکی قرض کے استعمال میں بے ضابطگیوں اور خورد برد سے متعلق تحقیقات مکمل کرتے ہوئے رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کردی ہے ۔ انکوائری رپورٹ میں 2008سے 2018کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں مختلف ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طورپر 1ہزار ارب روپے سے زائد قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی نشاندہی کرکے دونوں اپوزیشن جماعتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی گئی ہے ۔ اورنج لائن ٹرین، بی آرٹی پشاور بس، نیلم جہلم پن بجلی، صحت اور تعلیم کے شعبے سمیت 1ہزار سے زائد منصوبوں کی انکوائری کی گئی۔اکنامک افئیر ڈویژن، وزارت خزانہ سمیت مختلف وفاقی وصوبائی وزارتوں کے اعلیٰ حکام پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کے قرضوں سے پاکستان میں شروع ہونیوالے منصوبوں کی کامیابی کی 25تا30فیصد شرح کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ اہم ترین وزارتوں بالخصوص لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں تعینات افسران کی ہر اہم منصوبے میں شمولیت،بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے 13خاندانوں کے کردار کو بھی اجاگر کیا گیا ہے ۔انکوائری کمیشن نے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے ۔ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کی سربراہی میں قائم 11رکنی اعلی ٰسطح کمیشن نے 11ماہ میں انکوائری مکمل کی۔ انکوائری کمیشن میں نیب، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی،ایف آئی اے ،سٹیٹ بینک آف پاکستان،ایف بی آر ، ایس ای سی پی اور وزارت خزانہ کے حکام شامل تھے ۔ ذرائع کے مطابق سینکڑوں صفحات پرمشتمل ضخیم رپورٹ میں 2ہزار400ارب روپے کے ملکی وغیرملکی قرض کا حصول اور مختلف ترقیاتی منصوبوں پر خرچ میں بے ضابطگیوں اور منظور نظرافراد کو نوازنے کی انکوائری کی گئی ہے ۔ وفاقی حکومت نے 8نکاتی ٹی آوآرز کیساتھ 11رکنی کمیشن 21جون 2019کو قائم کیا تھا۔ حکومت نے انکوائری کمیشن کو 6ماہ میں انکوائری مکمل کرنے کا ٹاسک سونپا تاہم ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کی سربراہی میں انکوائری کمیشن اور سپورٹنگ سٹاف نے ہفتہ وار چھٹیوں اور دفتری اوقات سے کئے گھنٹے زائد کام کرکے یہ رپورٹ مکمل کی ہے ۔ دوران تحقیقات کمیشن نے ثابت کیا ہے کہ ڈیٹ ایکٹ 2005کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔ ماضی کی دوحکومتوں نے صرف 10سال کے عرصے میں 24ہزار ارب روپے ریکارڈ غیر ملکی قرض لیاجس کے نتیجے میں ملک پر قرضوں کا بوجھ 6690ارب روپے سے بڑھ کر ستمبر 2018 میں 30ہزار840ارب روپے تک پہنچ گیا۔بھاری قرضوں کے غلط استعمال کے نتیجے میں پاکستان ایک سنگین چیلنج سے دوچار ہوچکا ہے ۔ تعلیم اور صحت کے منصوبوں کے اربوں روپے دیگر ترقیاتی منصوبوں میں خلاف ضابطہ منتقل کئے گئے ۔کراچی میں ایک ہاوسنگ سکیم کیلئے کے فورمنصوبے کا ڈیزائن اور روٹ تبدیل کیا گیا جس کے نتیجے میں 30ارب روپے سے زائد نقصان ہوا۔ تعمیراتی کام سیلابی ریلوں کی نذر ہوچکا۔ڈیزائن کی تبدیلی کی نتیجے میں یہ منصوبہ ناقابل عمل بنا دیا گیا ہے ۔ایم تھری موٹروے کی لاگت میں دوہرا اضافہ کو بھی تحقیقات کا حصہ بنایا گیا ہے ۔سیف سٹی منصوبہ اسلام آباد اور لاہور کی بھی تحقیقات کی گئیں ہیں۔ 30ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرنے کے باوجود یہ منصوبے مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے ۔ اکنامک افئیرز ڈویژن میں منظور نظرافسران کو تعینات کیا گیا۔ اکنامک افئیرڈویژن کے افسران نے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اربوں روپے قرض لیا مگر بیشتر منصوبے ناقابل عمل تھے ۔ انکوائری کمیشن نے کئی منصوبو ں میں اختیارات کے ناجائز استعمال،کک بیکس کی نشاندہی بھی کی ہے ۔کمیشن کی جانب سے 100سے زائد انفرادی شخصیات کی بھی نشاندہی کی گئی جہاں سرکاری اور نجی منصوبوں کے ذریعے ذاتی اکاؤنٹس کے ذریعے مبینہ طور پر اربوں روپوں کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کی گئی ہیں۔کمیشن کی جانب سے حکومت کی طرف سے لیے گئے 400سے زائد غیر ملکی اور ملکی قرض کا مکمل ریکارڈ حاصل کر لیا گیا۔تمام وزارتوں اور ڈویژنز سے مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کیلئے 60 سے زائد افسران نے انکوائری کمیشن کی معاونت کی۔ جن میں غیر ملکی اور ملکی اداروں سے حاصل کیے گئے قرض کی تفصیلات،سیکڑوں منصوبوں کی تفصیلات،حکومتی اکاؤنٹس کا فرانزک تجزیہ،اداروں اور انفرادی شخصیات کا ریکارڈ جو کہ 200اداروں سے حاصل کیا گیا، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی2008سے 2018تک کی آڈٹ رپورٹس،منصوبوں میں پائی جانے والی بے قاعدگیاں اور ان منصوبوں میں شامل انفرادی شخصیات کا کردار شامل ہیں۔کمیشن نے رپورٹ میں تعاون نہ کرنے والے اداروں کا ذکر بھی کیا ہے ۔کمیشن کی جانب سے ایسٹ ریکوری یونٹ کے ذریعے غیر ممالک سے پنجاب اور وفاق کی جانب سے لیے گئے قرض کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔کمیشن کی جانب سے کئی جعلی اسکیموں کا سراغ بھی لگایا گیا جن میں اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے پبلک سیکٹر فنڈ کے نام پر رقم بٹوری گئی۔بی آر ٹی پشاور اور نندی پور پاور پلانٹ منصوبوں کی انکوائری بھی کی گئی۔بی آر ٹی کی تعمیری لاگت 30ارب روپے سے بڑھ کر 75ارب جبکہ نندی پور پلاور پلانٹ کی لاگت 84ارب روپے سے بڑھ کر 500ارب روپے تک جا پہنچی۔کمیشن کی جانب سے ان منصوبوں میں کئی کوتاہیوں کی نشاندہی کے ساتھ ذمہ داروں کا تعین بھی کیا گیا ہے ۔کمیشن کی جانب سے پیٹرولیم و قدرتی وسائل کے 25،مواصلات کے 85 منصوبوں کی تفصیلات حاصل کی گئیں۔پورٹس اینڈ شپنگ اور ریلوے کے 56،ایچ ای سی کے 285،صحت کے 78،آئی ٹی کے 203،وزارت داخلہ کے 186اور کابینہ ڈویژن کے 113منصوبوں کی جانچ پڑتال بھی کی گئی۔