جنوری کے آخری ہفتے کا آغاز بجلی کے طویل بریک ڈاؤن سے ہوا ،صبح ساڑھے سات بجے سے لے کر رات گئے تک پورے پاکستان میں بجلی کی فراہمی معطل رہی اور صحیح معنوں میں پاکستان اندھیروں میں ڈوبا رہا۔ہماری جنریشن جس نے ایسی اندھیرے پہلے بھی دیکھے ہیں، موم بتی اور لالٹین کی لو میں امتحانوں کی تیاری کی ہے ، ان کے لیے ایسا بھر پور اندھیرا نئی بات نہیں تھی ،مگر یو پی ایس کی جنریشن جو ہمارے بچے ہیں ان کے لئے ایک اتنی تاریکی خوف کی علامت تھی۔ اور خوف کی علامت تو یہ بھی تھی کہ پورے پاکستان کی بجلی بند تھی ۔انٹرنیٹ بند ہوچکا ،ٹی وی بند تھے ، غرص خبر کے تمام ذرائع بند تھے۔ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ سے یو پی ایس کی بیٹریاں جواب دے چکی تھیں۔یو پی ایس کے ہوتے ہوئے اب ضرورت ہی نہیں رہی تھی کہ ایمرجنسی لائٹ کو چارج کرکے رکھتے سو نتیجتاً سردیوں کی شام گہرے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ویسے اس طرح کا گہرا اندھیرا بہت زمانوں کے بعد دیکھا، افسوس کہ آسمان تاروں سے خالی تھا ورنہ تاروں کا بھی دیدار ہو جاتا۔جب رات تک بجلی آنے کا کوئی امکان پیدا نہ ہوا تو موم بتی کی تلاش میں نکلے۔ گلی، محلوں ، بازاروں میں لوگ چوپالیں لگائے بیٹھے تھے کیونکہ موبائل کی بیٹریاں بند ہو چکی تھیں ۔سو سکرین کی قید سے آزادی ملی ہوئی تھی اور وہ آپس میں ٹولیاں بنا ئے حکومت کی بدانتظامی اور بجلی کے بریک ڈاؤن پر محو گفتگو تھے۔ موم بتیاں نایاب تھیں سو نہ ملیں۔ ایک دکان سے چھوٹی چھوٹی سجانے والی چند موم بتیاں ملیں۔موم بتی کی تلاش میں نکلی ہوئی ایک گاہک خاتون نے واویلا کیا کہ اس کی چھوٹی بچی اندھیرے میں شدید خوفزدہ ہوکر اونچا اونچا روتی ہے۔ گھر کی تمام بتیاں بند ہیں ، یہاں تک کہ موبائل کی لائٹ بھی بند پڑی ہے ،کچھ سجھائی نہیں دے رہا، بس بچی روتی ہے کہ لائٹ جلاؤ۔دو موم بتیاں اس خاتون کو دے دیں کہ جاؤ بچی کو جاکر روشنی کا چہرہ دکھاؤ۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ وہ بہت ہی ننھی منی سی سجاوٹی موم بتی تھی سو جل کر ختم ہوگئی۔ ایسے میں دیا بنانے کا خیال آیا۔ایک پرانی یاد جھماکے سے بیدار ہوئی ۔ گاؤں کی ایک شام مہربان ہاتھوں کو یہ دیا بناتے ہوئے دیکھا تھا۔ مٹی کی ایک پیالی میں سرسوں کا تیل ڈالاپھر دونوں ہاتھوں میں روئی کو گھما کر پتلی بتی کی شکل دی ، اسے سر سوں کے تیل میں گیلا کیا اور اس مٹی کی پیالی میں رکھ کر ایک سرے کو آگ لگادی،دیا جل اٹھا۔اس کی لو نے مکمل اندھیر ے کو چیر کر روشنی کی ایک لکیر بنا دی۔ میرا بیٹا اس " ڈی آئی وائے" دیے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور اپنی ماں کی صلاحیتوں کا قائل ہو گیا۔ جب رات سات بجے کے بعد بھی بجلی بحال نہ ہوئی تو تشویش بڑھنے لگی۔ سوال سب کے لب پر یہی تھا بجلی کب آئے گی مگر بجلی کب آئے گی سے پہلے یہ سوال تھا کہ آخر بجلی کا اتنا بڑا بریک ڈاؤن کیسے ہوا۔کہا گیا کہ نیشنل گریڈ کی مین لائنوں میں فالٹ کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کا نظام متاثر ہوا۔ یہ فالٹ بنیادی طور پر سسٹم میں فریکونسی کی کمی تھی۔ توانائی کے وزیر خرم دستگیر نے کہا کہ بجلی کا بریک ڈاؤن لوڈ میں فلیکچوایشن کی وجہ سے ہوا اور بارہ گھنٹوں میں یہ کام بحال کر دیا جائے گا۔ بجلی کا یہ وسیع بریک ڈاؤن تھا جس سے بیک وقت پورا ملک متاثر ہوا اورکم وبیش پندرہ گھنٹے پاکستان کے کام رکے رہے۔ یہ ا نتظامی سطح پر بہت بڑا فیلئر تھا، اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ وزارت بجلی اور پانی کی بڑی ناکامی ہے کہ کوئی بیک اپ انتظام موجود نہ تھا ۔ اس پر اپنی بد انتظامی کوتسلیم نہ کرنا کسی جرم سے کم نہیں۔ جیسا کہ کہا گیا کہ بریک ڈاؤن ایک نارمل چیز ہے ۔خرم دستگیر فرماتے ہیں کہ موسم سرما میں ملک بھر میں بجلی کی طلب کم ہونے اور معاشی اقدام کے تحت ہم رات کے وقت بجلی پیدا کرنے کے نظام کو عارضی طور پر بند کر دیتے ہیں تاہم آج پیر کی صبح سات بجے کے قریب ایک ایک کر کے سسٹم کو آن کیا جا رہا تھا ، فریکوئنسی میں کمی کی وجہ سے بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا۔ پاکستان کوہمیشہ سے بجلی کے بحران کا سامنا رہا ہے ہر حکومت نے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے، بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے سطحی اقدامات کیے۔ بجلی کی پیداوار اور اس کی کھپت میں توازن نہیں رہا۔دنیا جن وسائل کو استعمال کرکے بجلی پیدا کر رہی ہے پاکستان ان وسائل سے مالا مال ہے۔حتی کہ سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کی طرف بھی ہم نے اتنی توجہ نہیں دی جتنی دے سکتے تھے۔دنیا کے کئی ملکوں میں سولر انرجی سے چھوٹے شہر اور گاؤں چلائے جارہے ہیں ۔انڈیا کی ریاست گجرات میں ایک پورا گاؤں سولر ویلج کے نام سے مشہور ہے۔جہاں رہنے والے زیرو بل دیتے ہیں بلکہ اپنی بنائی ہوئی بجلی گرڈ کو بیچتے بھی ہیں۔ دنیا اس وقت رینیوایبل انرجی کی طرف جارہی ہے ۔یہ توانائی کی وہ قسم ہے جو ہم قدرتی ذرائع سے حاصل کرتے ہیں جیسے سورج کی روشنی سے بجلی بنانا ،ہوا سے بجلی بنانا۔پوری دنیا میں اس پر بات کی جا رہی ہے کہ اگر آپ اپنے سیارے زمین کو موسمیاتی تبدیلی سے آنے والی تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو ری نیو ایبل انرجی ہی اس کا حل ہے۔سورج ہوا اور پانی توانائی کے رینیوایبل ذرائع ہیں۔ پاکستان میں سورج کی روشنی بھی وافر ہے، اسی طرح سندھ کے بعض علاقوں میں ہوا کی رفتار ونڈ بجلی پیدا کرنے کے لیے بہترین ہے ،کچھ کام ہو رہا ہے لیکن اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ہر سیاسی جماعت کو ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو سیاست کے بکھیڑوں اور روز مرہ کی سیاسی سنسنی خیز یوں کے خمار سے باہر نکل کر اصل اور بنیادی منصوبوں پر توجہ دے سکے۔ٹی وی چینلز کو بھی اپنے پرائم ٹائم کے پروگراموں میں سیاسی بحثوں سے ہٹ کر پاکستان کے بنیادی مسائل کو مکالمہ کا موضوع بنانا چاہیے۔