وہ سیاست دان احمق کہلائے گا جو عوام کو طاقت کا سرچشمہ کہے اور عوام سے لڑے۔ عقلمند وہ بھی نہیں جو سرمائے سے طاقتور لوگ خریدتا ہے اور پھر انہیں کہتا ہے ’’مجھے بھاری مینڈیٹ چاہیے۔‘‘ جمہوری نظام صرف اسے دانش مند مانتا ہے جو عوام کے حق حکمرانی کے لیے میدان میں اترتا ہے۔ سن رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن نے اپنا کوئی نیا بیانیہ ترتیب دیا ہے۔ بات پھیلائی جائے گی کہ عمران خان کو مسلط کرنے کی سازش جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور ایک تیسرے افسر نے مل کر تیار کی۔ اس بیانئے کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عمران خان کے بارے میں ایسے دلائل کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جن سے معلوم ہو کہ ملک کی موجودہ معاشی بدحالی کی وجہ پی ٹی آئی کی پالیسیاں تھیں۔ اس بیانئے میں سابق درجنوں بیانیوں کی طرح کچھ حصہ عمران خان کی ذات پر حملوں کا رکھا گیا ہے۔ مقدمات اور عدالتی کارروائی کا مسالہ بھی ذائقہ تیز کرنے کے لئے حسب سابق شامل رکھا گیا ہے۔ ایوب اور بھٹو دور کی سیاست نمبرداروں‘ معززین علاقہ اور رضا کار سیاسی کارکنوں کے ذریعے کی جاتی۔ جو نعرہ اور منشور دیا جاتا وہ ان ہی طبقات کے ذریعے عام کیا جاتا۔ نوازشریف سیاست میں آئے تو روپے کا استعمال شروع ہوا۔ سیاسی کارکن معاوضے پر رکھے گئے۔ الیکشن اخراجات کے لیے ٹھیکیداروں کی فوج تیار کی گئی جنہیں اقتدار میں آ کر بڑے تعمیراتی ٹھیکے دیئے جاتے۔یہ اس زمانے کی اے ٹی ایم تھے۔ طاقت ور افسروں کو مرسڈیز کی چابیاں دی جاتیں۔ جن سے کام ہوتا ان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیج دیا جاتا۔ وفادار صحافیوں کی ایک نسل کو سدھایا گیا۔ ان سب کو پلاٹ‘ کاروبار اور اہم اداروں کی سربراہی عطا کی گئی‘ کچھ کو سینٹ کارکن بنایا گیا۔ ان سب پر انعامات کی بارش دیکھ کر بہت سے آج بھی مسلم لیگ ن کے گرتے ہوئے حصص کی قیمت بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ججوں کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھائی گئیں۔ کچھ سینئر وکلاء اور ججوں کے ذریعے اپنے مقدمات کا من چاہا فیصلہ لیا۔ ایک تقرری تو حال ہی میں ہوئی ہے۔ یہ سب لوگ بیانئے نہیں بنا سکتے تھے۔ بس ریاست کے وسائل لوٹتے تھے اور جب ان کی ضرورت پڑتی تو شریف خاندان کے حق میں کردار ادا کرتے۔ یہ عمل سیاسی ٹرینڈ کہلا سکتا ہے، اسی ٹرینڈ نے نچلے طبقات پر سیاست کے دروازے بند کئے ۔ بیانیہ کی ایک نظریاتی بنیاد ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ بھی ہو جائے مولانا فضل الرحمن اپنی بنیادی گرائونڈ دینی مدارس کے خلاف نہیں جائیں گے۔ یہ نہیں کہ ان کے دینی رہنمائوں سے اختلافات نہیں یا دوسرے مدارس کے سا تھ ٹکرائو نہیں لیکن وہ اس سارے اختلاف کو قومی میڈیا پر آنے کا موقع نہیں دیتے۔ پیپلزپارٹی کوئی مثالی سیاسی جماعت نہیں رہی‘ خاص طور پر چند برسوں میں اس کے بارے میں یہ تاثر پھیلتا جارہا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا جمہوری چہرہ ہے۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ جب خود کو جمہوری انداز میں فعال کرنا چاہتی ہے تو اپنے فیصلے پی پی پی کی طرف سے جاری کرواتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں ارکان کا ادھر ادھر ہونا اور صادق سنجرانی کا چیئرمین سینٹ بننا‘ عمران حکومت کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرنا جیسے بہت سے فیصلے ہیں جو صادر کہیں اور سے ہوئے اور کامیابی کا دعویٰ کسی اور نے کیا۔اس کے باوجود کھلم کھلا آئین شکنی سے اجتناب کیا جائے گا۔ 1997ء سے عمران خان کی کردار کشی ہورہی ہے۔ وہ میڈیا کردار انتقال کر گیا جو شراکت دار تھا‘ وہ سیاسی اتالیق ایک نازیبا ویڈیو کا خود نمونہ بن گیا جو اس مہم کا ذمہ دار تھا۔ عمران خان ممکن ہے ایسا ہی ہو جیسا اس کے مخالفین بتاتے ہیں لیکن ملک میں ایک ہی آدمی کو برا کہنے والے اگر اپنا دامن بے داغ نہ رکھ سکیں تو ایسی مہم کا ردعمل بہت بھیانک ہوتا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ ن کو خاص طور پر جس گالم گلوچ کا سامنا سوشل میڈیا پر کرنا پڑ رہا ہے یہ وہی ردعمل ہے۔ یہ ردعمل اپنی نوع میں قابل مذمت ہے لیکن اس کو روکنا صرف اسی کے ہاتھ میں ہے جس نے عمل اور ردعمل کا کھیل شروع کیا۔ یقینا ٹھہرے ہوئے پانیوں کو یہ سمجھنے میں دقت آ رہی ہے کہ عمران خان کبھی اسمبلی سے استعفے دیتے ہیں اور کبھی اصرار کرتے ہیں کہ انہیں اسمبلی واپس جانا ہے‘ کبھی اسمبلی توڑتے ہیں اور پھر اس کے انتخاب کی تاریخ مانگتے ہیں‘ ان کے لیے یہ سمجھنا بھی کار دشوار ہے کہ عمران خان نے جنرل باجوہ کے ساتھ اچھے تعلقات خراب کیوں کئے۔ کچھ عرصہ پہلے عمران خان کے مخالف ٹرینڈ ساز توشہ خانے کی بہت بات کرتے تھے۔ اب وہ خاموش کیوں ہیں۔ کیونکہ اس وقت توشہ خانے کا معاملہ عدالت میں ہے جہاں کہا جارہا ہے کہ پچھلی حکومتوں میں توشہ خانے کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ ایسا غضب ہو گیا تو لوگ عمران خان کی گھڑی بھول جائیں گے۔ عمران خان کو طعنہ دیا جارہا ہے کہ وہ راولپنڈی کی طرف دیکھتے رہے‘ امپائر کی انگلی سے لے کر موجودہ آرمی چیف تک کو اہم معاملات پر مداخلت کا کہتے رہے ہیں۔ معلوم نہیں لوگ کس طرح سامنے سے حقائق اٹھا کر جھوٹ کے پتلے رکھ دیتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف گھڑے تازہ بیانئے کی ناکامی ابھی سے لکھ لیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جن قوتوں نے عمران خان کو جنرل باجوہ اور ان کے ساتھیوں پر تنقید سے روکا ہو وہ مسلم لیگ ن کو محض اس وجہ سے ایسا کرنے کی اجازت دے دیں گی کہ وہ حکومت میں ہے۔ مسلم لیگ ن کا بیانیہ بنانے والے بس اپنی قیادت سے رقم بٹوریں اور عیش کریں۔ بیانیہ ویانیہ بنانا دانشوروں کا کام ہے۔