سانسوں میں کوئی خوف بسا لگتا ہے ہر جسم مجھے سر سے جدا لگتا ہے مشکل میں ہوں میں اور ہوں خود سے الجھا ہونا میرا دیکھو تو سزا لگتا ہے ہم سب کو ایک غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ معاشرہ بری طرح سے تقسیم ہو چکا ہے۔ کل کے دوست آج کے دشمن اور اسی طرح کل تک ایک دوسرے کو قابل گردن زدنی قرار دینے والے ایک دوسرے سے بغل گیر ہیں۔ وقت پر گدھے کوباپ بنانے والا محاورہ صرف محاورہ ہی نہیں کہ محاورے تو ہمارے عمل سے بنتے ہیں۔ مکاری‘ عیاری اور بزدلی طفیلی لوگوں کا شیوہ ہے۔ درباری انداز انہیں بھاتا ہے کہ دوسروں کے جھوٹ اور اس کا انجام بتانے والا یکسر بھول جاتا ہے کہ وہ بھی اس بے عملی یا منافقت کا شکار ہورہا ہے۔ شاید پہ غلط بیانی یا کہہ مکرنی اس نظام سیاست کی ضرورت ہے مگر کیا کریں کہ ذرائع ابلاغ نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ مکرنے بھی نہیں دیتے مگر دوسری طرف بھی وہ ڈھائی ہے کہ خدا کی پناہ۔ ڈر ہے کہ الٹ جائے نہ بستی ساری۔ ہر شخص یہاں ایک خدا لگتا ہے۔ نظام اور معاشرے کا بگاڑ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ کبھی ہوتا تھا کہ ادارے اہم ہوا کرتے تھے۔ کوئی تند خراب ہوتی تھی تانی نہیں۔ تبھی تو طنزاً کہا جاتا ہے کہ تند نہیں تانی بگڑی ہوئی ہے۔ یعنی افراد بگڑ جاتے تو ان کی نشاندہی کردی جاتی کہ فلاں رشوت خور ہے یا فلاں حرام کھاتا ہے۔ گویا کہ اکثریت اچھی ہوتی تھی۔ یہ تناسب یکسر بدل چکا ہے۔ اب تو یہ ایک دیگ کی طرح ہیں جس کا ایک دانہ ہی چکھنا کافی ہے۔ اسی طرح نظام چلانے والے بھی ایک سے بڑھ کر ایک۔ وہی جو کسی بچھو سے کسی نے پوچھا تا کہ تم میںزہر کیوں ہے۔ بچھو نے کہا کسی کی بھی دم پر انگلی رکھ دو تمہیں پتہ چل جائے گا۔ پہلے ہمارے ادارے آزاد تھے‘ ریاست کے لیے کام کرتے تھے پھر اس میں جاگیردار کی چلنے لگی اور پھر کاروباری لوگوں نے اپنی سرمایہ کاری کی اور ہر ادارے میں اپنے بندے بٹھا دیئے بلکہ ادارے ان کے سپرد کردیئے گئے۔ کتنے لوگ ہیں جو سیاستدانوں کے لیے دلالی کرتے رہے اور تو اور عدالتوں کے بھی نام رکھے گئے کوئی قیوم کورٹ تو کوئی ڈوگر کورٹ۔ آپ اس لکھے کو نوحہ کہیں یا شہر آشوب مگر یہ سچ ہے: قصے بھی بہت ہیں تری باتیں بھی بہت لیکن وہی کہنا جو روا لگتا ہے جب ادارے سیاسی طور پر کسی نہ کسی کے زیر اثر ہیں تو وہ اپنے عمل سے نظر بھی آ رہے ہیں۔ انا نے ان کو اور زیادہ بے ترتیب کر دیا ہے سب کچھ بکھر کر رہ گیا ہے ۔ آپ تھوڑی سی آگہی اور تھوڑا سا ادراک رکھتے ہوں تو نتائج حالات سے خود جھانکنے لگتے ہیں۔ عمران خان پھر آ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کو یہ بات بری لگے اور کسی کو اچھی لیکن یہ ایک اندازہ ہے۔ وہی کہ بنیے کا بیٹا کچھ سوچ کر ہی گرتا ہے۔ پرویزالٰہی نے اپسے ہی سب کچھ تیاگ نہیں دیا اور پھر وہ بندہ کس کا ہے۔ اب چوہدری شجاعت سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی تو سب کچھ بھانپ لیا ہے اور ان کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ مجھے تو کسی اور بات پر تشویش ہے کہ وہ لوگ چھپے بیٹے ہیں جو پکی پکائی کھیر کھانے آن بیٹھتے ہیں۔ وہی کہ منزل انہیں مل جاتی ہے جو شریک سفر نہیں ہوئے۔ ایک نکتہ معترضہ پر میں بات کرنا چاہوں گا کہ مولانا یہ جو کہتے ہیں عمران کے آنے سے مغربی معاشرہ یہاں آ جائے گا۔ وہ تو پہلے ہی ہو چکا کہ مغربی معاشرہ کی بجائے پارس سے سوا ہندی چھاپ بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ اندرا گاندھی نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ انہوں نے پاکستان پر ثقافتی فتح پا لی ہے اور یہ ہرگز غلط نہیں۔ سوال تو میرا علما سے بنتا ہے کہ وہ کیوں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتے ہیں۔ وہ کیوں نفرتوں میں بٹ گئے۔ انہیں گو قرآن و سنت صرف مسلمان قرار دیتے ہو۔ وہ سب کیوں ایک نہیں ہو جاتے۔ چلیے کم از کم ایک دوسرے کوبرداشت ہی کرلیں۔ آپ سیاست میں دین لے کر آئیں نہ کہ دین کو سیاست بنائیں: کسے خبر ہے کہ کیسے میں زخم زخم ہوا بکھر گیا تھا میں کتنا مگر انا میں رہا خیر بات ہورہی تھی سیاست کی اور حکمرانی کی۔ آپ بجلی کا بریک ڈائون ہی دیکھ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کیا کسی بھی ملک میں ایسے شدید بریک ڈائون کا کوئی تصور ہے اور یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ عوام بے چارے کس اذیت سے گزرتے ہیں۔ کوئی حکمران بھی اس بجلی کے نظام کو اپ ڈیٹ نہ کرسکا۔ بس وقت کو ٹالتے آئے ہیں۔ سولہ گھنٹے کا بریک ڈائون اور وہ بھی پورے ملک میں۔ قوم کو بتایا گیا ہے کہ آپ کس کے رحم و کرم پر ہیں۔ پورا ملک بجلی سے محروم تھا‘ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ نقشہ نہیں کھینچا جا سکتا۔ لوگ پانی ڈھونڈنے کے لیے مارے مارے پھرتے رہے۔ مساجد میں وضو کے لیے پانی نہیں رہا۔ لوگ کھانا پکانے سے تو ایک طرف رہے دوسری بشری ضروریات کے لیے پریشان ہو کر ایک اذیت میں رہے۔ حکومت لوگوں کو طفل تسلیاں دیتی رہی کہ بس بجلی جلد بحال ہو جائے گی۔ رات دس بجے کے قریب یہ بحالی شروع ہوئی۔ پورے ملک میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ تو ابھی آئے گا۔ حکومت تو اپنی سیاست بچانے کے چکر میں ہیں۔ آخری بات نوازشریف کی کہ وہ فرماتے ہیں عمران خان نے ملک کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بالکل غلط۔ اس نے کسر چھوڑی تھی جسے شہبازشریف نے پورا کیا۔ میں نے لکھا تھا کہ ایک نے مارا ہ میں دوسرا دفنائے گا۔ اب تو شاید آخری سانسیں ہیں۔ لوگ بھی تھک چکے ہیں۔ یہ لالچی اور حریص لوگ اپنا اپنا علاقہ لے کر باج گزار بنے ہوئے ہیں۔ اسی بات کو کھولوں گا تو خطرناک ہو جائے گی۔ سعدیہ صفدر سعدی کا شعر: کیا ستم ہے تجھے خبر ہی نہیں حاکم وقت! لوگ مرتے ہیں