ایک زمانہ تھا جب چاہت سے خط لکھتے اور شدت سے جواب کا انتظار ہوتا ۔ چٹھی رساں ’’ڈاکیے ‘‘ کا محبوب سے بڑھ کر انتظار ہوتا، جونہی ڈاکیہ آتا ڈاک دیتا خطوط پڑھ کر دل خوش ہو جاتا ۔ رات کو پھر نئے خط لکھنے بیٹھتے اور لکھتے لکھتے آدھی رات بیت جاتی ۔ خط لکھتے ہوئے یا خط پڑھتے ہوئے آنکھیں بھیگ جائیں تو سمجھ لینا چاہیئے کہ دل والی بات ہے ، جو بات دل سے نکلے وہ اثر رکھتی ہے ۔عشق روابط کا اک محرک ہے اور روابط سے ہی زندگی کا تسلسل ہے۔ محبوب کا عشق ان روابط کو ترتیب دیتا ہوا عاشق کی زندگی کومنظم کرتا ہے اور اسکی یہ باطنی تنظیم بعد مرگ بھی قائم رہتی ہے۔ بلاشبہ یہ خطوط ایک تاریخ بھی ہیں اور تاریخ کا حصہ بھی،خطوط نویسی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ درسی کتابوں میں بچوں کو سمجھانے کیلئے ،خطوط نویسی کا عنوان تو پڑھتے رہے ہیں ۔ غالبؔ کے خطوط کا بھی چرچا ہے جبکہ خطوط نویسی ایک ایسی صنف ہے جسے ادبی صنف کا نام دیا جائے تو ہر خط لکھنے والا شخص صاحبِ کتاب بن سکتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ شاعر یا ادیب خط لکھتے رہے ہیں بلکہ خط لکھنے والے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھی خط لکھتے ہیں جن کا ادب سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔ اگر خط لکھنے والے حضرات نے اپنے بھیجے گئے خطوط اور آنے والے جواب کا ریکارڈ رکھا ہو اور وہ ان خطوط کو کتابی صورت میں چھپوا دے تو وہ بھی صاحب کتاب بن سکتا ہے ۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ خطوط کی نوعیت سیاسی ، سماجی ،ثقافتی ، تہذیبی ،تمدنی اور انتظامی ہو سکتی ہے ۔ مقامی مسائل کے حوالے سے بھی خطوط ہوتے ہیں ۔ایک اہم بات یہ ہے کہ حریت کے حوالے سے خطوط ہیں جو کہ انگریز سامراج کو لکھے گئے ۔وہ خطوط بھی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ہر خط کی اپنی ایک حیثیت ہوتی ہے جسے تاریخ اپنے ورق پر محفوظ کر لیتی ہے ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ 99.99 فیصدخطوط ایسے ہیں جو کسی کتاب کا حصہ نہ بنے اور اس بنا پر وہ ضائع ہو گئے گویا ان کا ضائع ہونا تاریخی اثاثے کے مترداف ہے ۔ اسی بنا پر لائق صد تحسین ہیں کہ ڈاکٹر ندیم اشرف صاحب نے خطوط کو محفوظ کرکے دراصل تاریخ کو محفوظ کر دیا ہے۔ خطوط صرف ایک شوق کا نام نہیں بلکہ خطوط میں بھی ایک تاریخ پنہاں ہوتی ہے ۔اگرچہ خطوط کو نجی اور ذاتی حوالے سے دیکھا جاتا ہے تاہم ہر خط اپنے وقت کی تاریخ بھی ہوتا ہے اور مؤرخ بھی ۔خط میں لمحہ موجود کے حالات و واقعات کی گفتگو رقم کی جاتی ہے ۔ خطوط میں کچھ سوالات ایسے پوچھے جاتے ہیں جن کا تعلق تاریخ ، ادب اور جغرافیہ سے ہوتا ہے ۔ کچھ خطوط تاریخی حیثیت کے حامل بھی ہوتے ہیں جو کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف لکھے جاتے ہیں ، کچھ خطوط مسائل کے حوالے سے بھی ہوتے ہیں جو کہ حاکمِ وقت کو لکھے جاتے ہیں کچھ خطوط خوشامد کے حوالے سے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ سول سکرٹریٹ لاہور کے میوزیم میں ایک خط بڑے فریم کی صورت میں موجود ہے یہ خط ڈیرہ غازی خان کے سرداروںاور تمنداروں نے برطانیہ کے بادشاہ کے نام ہے جس میں اسے ظل الٰہی کے القابات تک پکارا گیا ہے ۔ خطوط نویسی حوالے کا باعث بھی ہوتی ہے ، ریسرچ سکالر خطوط کے تاریخی ، تحقیقی اور تنقیدی مضامین کو حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ایسے خطوط بذاتِ خود تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور لکھنے والے کو بھی امر کر دیتے ہیں۔ سرائیکی ادب میں خطوط نویسی کے حوالے سے کم کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ نصابی حوالے سے دیکھا جائے تو سید انیس شاہ جیلانی کا بہت بڑا نام ہے ۔ پروفیسر شوکت مغل نے اپنے نام لکھے گئے جیلانی صاحب کے خطوط کی ایک کتاب شائع کی تھی ۔ ’’خطاں بھری چنگیر‘‘ کے نام سے سابق جج اسلم میتلا مرحوم کی کتاب بھی موجود ہے ۔ ندیم اشرف صاحب کی کتاب سرائیکی میں تو نہیں لیکن سرائیکی وسیب کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ان کی یہ کتاب بھی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے ۔ جس طرح اُردو مضمون نگاری میں سرسید احمد خان کے خطوط کا مجموعہ ’’مقاطیب سر سید‘‘ کے نام سے علامہ شبلی نعمانی نے شائع کیا اسی طرح اسد اللہ خان غالبؔ کے خطوط ’’عودے ہندی،اُردوئے معلیٰ، مقاطیب غالبؔ،اور مہرغالب کے نام سے ابوالغالب ، مولانا حالی کے خطوط ، مرزا رجب علی بیگ کے خطوط ، صفیہ اختر کے خطوط ، زیرِ لب کے علاوہ مولانا مودودی کے خطوط جس طرح تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں اسی طرح ندیم اشرف صاحب کے خطوط بھی تاریخ کا حصہ بنیں گے۔ قوموں کی زندگی میں پیغام رسانی کی بہت اہمیت ہے کہ پیغام رسانی فرشتے بھی کرتے رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرائیل کے ذریعے سرکارِ دوعالمؐ تک وحی کا آنا پیغام رسانی کا ہی ایک ذریعہ ہے۔اس کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ جب سے کائنات وجود میں آئی ہے اور انسان نے اپنے دو پائوں پر چلنا سیکھا ہے ۔پیغام رسانی کا سلسلہ جاری ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ پیغام رسانی کی شکلیں تبدیل ہوتی رہی ہیں ۔محکمہ اری گیشن میں ایک پوسٹ برق انداز کی ہے ۔ برق انداز میںایک جگہ سے دوسری جگہ برق رفتار گھوڑے کے ذریعے پہنچاتا تھا ۔تار ، ٹیلی فون ، ڈاک یہ سب پیغام رسانی کے سلسلے ہیں ۔’’ چٹھی میرے ڈھول دی پجاویں وے کبوترا‘‘کبوتر بھی پیغام رسانی کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ڈاک کا ذکر بار بار آتا رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغام رسانی کے سلسلے میں محکمہ ڈاک نے بہت مدت تک راج کیا ہے مگر ڈیجیٹل دور نے اسے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آج نوجوان کے ہاتھ میں موبائل ہے وہ اس سے صرف خط و کتابت ہی نہیں ، ریڈیو ٹی وی ، کیمرہ ، کلکولیٹر ، اور نہ جانے کتنی دیگر اشیاء کا کام لے رہا ہے ۔ تاہم یہ بتانا ضروری ہے کہ ثبات صرف تغیر کو ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز کے طور طریقے تبدیل ہوتے رہتے ہیں مگر اصلیت وہی رہتی ہے ۔بدلتے ہوئے وقت کا ساتھ دینا عقلمندی ہے۔