وطن عزیز کے حالات انتہائی گھمبیر ہیں، ملک اندرونی اور بیرونی طور پر طرح طرح کے خطرات میں گھرا ہوا ہے، خود وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت میں عام انتخابات تک پاکستان پر جارحیت کے خطرات منڈلاتے رہیں گے اور بھارت کی نیت ٹھیک نہیں، اس کا ثبوت غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کی ایسی رپورٹس بھی ہیں جن کے مطابق بھارت نے لائن آف کنٹرول پر میزائل نصب کر دیئے ہیں اور بھارتی ایئر فورس اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ آپریشنل الرٹ کو برقرار رکھنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مزید میزائل اور گولہ بارود خریدا جائے، بلوم برگ نیوز ایجنسی کے مطابق بھارتی ایٹمی آبدوزیں اور ائیر کرافٹ کیئریئر بحیرہ عرب میں پاکستان کی بحری حدود کے قریب منڈلا رہے ہیں۔ مقا م شکر ہے کہ چین نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے حالیہ دورے کے دوران پاکستان کے موقف کی دوٹوک تائید کی ہے اور کہاہے کہ دنیا یا خطے میں کوئی بھی تبدیلیاں آئیں چین پاکستان کی آزادی، خود مختاری، علاقائی سلامتی اور وقار کے لیے دامے درمے سخنے ساتھ کھڑا ہے۔ دوسری طرف بلند بانگ دعوؤں اور ڈینگوں کے باوجود ملکی اقتصادیات کا حال پتلا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے وزیر خزانہ اسد عمر اس صورتحال کا سابق حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اب حالات بہت بہتر ہے۔ تاہم زمینی حقائق ایسے دعوؤں کی یکسر نفی کرتے ہیں کیونکہ ابھی تک کاروبار ٹھپ ہیں ۔ وزیراعظم کو کہنا پڑا ہے کہ ’حکومت کو مشکلات ہیں، بیوروکریٹس فیصلے نہیں کر رہے، نیب ہر کیس کھولنے کے بجائے بڑے مقدموں پر توجہ دے۔ لیکن ان تلخ باتوںکے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا‘۔ حالیہ دنوںکے ہی اخبارات دیکھیں تو بلاول بھٹو ٹویٹ کے ذریعے عمران خان پر طنز یہ وار کرتے ہوئے کٹھ پتلیوں کے عالمی دن پر انھیں مبارکباد دیتے ہیں۔ دوسری طرف فواد چودھری کہتے ہیں کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو ابو بچاؤ مہم چلا رہے ہیں۔ ون مین تانگہ پارٹی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ وزیر ریلویز شیخ رشید جوفقرے بازی کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتے ہیں، فرماتے ہیںکہ آصف زرداری نے کر منالوجی میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔ شیخ رشید جو اکثر فقرے بازی کرتے ہوئے انگریزی زبان سے کھلواڑ کرتے رہتے ہیں۔ غالباً یہ کہنا چاہتے تھے کہ زرداری جرائم کی دنیا کے ان داتا ہیں جیسا کہ سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ کر منالوجی تو جرائم کو سمجھنے اور ان کی بیخ کنی کے حوالے سے باقاعدہ ایک مضمون ہے جس پر پی ایچ ڈی بھی کی جا سکتی ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ پاکستان دہشت گردی کی فنانسنگ کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ جو جہاد پر یقین نہیں رکھتا میں اسے مسلمان نہیں سمجھتا، یہ میرا ایمان ہے اور اس پر ڈٹا ہوا ہوں چاہے ساری قوم میری مخالف ہو جائے۔ شیخ صاحب کو نہ جانے کہاں سے یہ خبر بھی مل گئی کہ آصف زرداری نے شہید (یعنی بے نظیر بھٹو) کی شہادت کا فائدہ لیتے ہوئے ایک ملازمہ کے پرس سے وصیت نکال لی۔ شیخ صاحب بلاول بھٹو کے سیاسی مستقبل اور ان کی سکیورٹی کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، یہ بھی ایک قسم کی ملفوف دھمکی ہے کہ سیاست کرو گے تو مارے جاؤ گے۔ بلاول نے بھی تین وزراء کے جہادی تنظیموں سے رابطے ہونے کا الزام عائد کر رکھا ہے گویا کہ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاستدان فقرے بازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے خو د یا مشیروں کے ذریعے اس قسم کے ڈائیلاگ گھڑتے رہتے ہیں جو ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کے لیے تو ٹھیک ہونگے لیکن ملک میں حالات کی نزاکت کے مطابق سنجیدہ سیاست کی نفی کرتے ہیں یقینا جیسا کہ وزیراعظم نے خود تسلیم کیا ہے بھارتی جارحیت کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ عملی طور پر اقتصادی ایمرجنسی اپنی جگہ لیکن نیب کی ہتھ چھٹ کارروائیوں کا اندازہ ا س بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جسٹس آ صف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی بار بریگیڈئیر(ر) اسد منیر کی مبینہ خود کشی سے قبل لکھے گئے خط پر نوٹس لے لیا ہے۔چیف جسٹس نے اسد منیرکے خلاف نیب میں دائر ریفرنس کے حوالے سے چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سے رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نے 15مارچ کو خود کشی کر لی تھی اور اس سے قبل انہوں نے ایک خط بھی چھوڑا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نیب انہیں بے بنیاد مقدمات میں نامزد کر رہا ہے، نیب کے رویے سے تنگ آکرخودکشی پر مجبور ہو رہا ہوں۔ اس وقت تو قوم کو بنیان مرصوص بنا ہونا چاہیے تھا لیکن حکومت اور اس کے ترجمان چو بیس گھنٹے اپوزیشن کو بے نقط سنانے کے ساتھ ساتھ دیوار سے لگانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ ہمارا نیب سے کوئی تعلق نہیں، دوسری طرف ایک سو چے سمجھے منصوبے کے تحت اپوزیشن کو نااہل، کرپٹ اور بدکردار ثابت کرنے کی باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ حکومت پنجاب کے ترجمان شہباز گل جو وضع قطع سے خاصے معقول اور دانشور لگتے ہیں، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ میاں نواز شریف بیمار نہیں بلکہ ہٹے کٹے ہیں، ان کی ناشتے اور لنچ کا مینو میڈیا کو بتاتے رہتے ہیں، یہ رویہ بچگانہ بھی ہے کیونکہ ایسی باتیں نہ صرف ایک شخص جو تین مرتبہ وزیراعظم رہا ہو بلکہ کسی عام قیدی کی بھی پرائیویسی کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اپوزیشن نیشنل ایکشن پلان کے لیے28 مارچ کو بلائے گئے پارلیمانی سربراہوں کے اجلاس میں جانے سے انکاری ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے لیکن حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مٹی کا مادھو بنی بیٹھی ہے۔ اپوزیشن کو بھی ادراک ہونا چاہیے کہ فوجی عدالتوں کے علاوہ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مکمل سرکوبی کے لئے تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی پیج پر ہونی چاہئیں۔ وطن عزیز میں انتہا پسند رویوں کا یہ حال ہے کہ بہاولپور کے ایس ای کالج میں ایک طالب علم خطیب حسین نے طلبہ و طالبات کی الوداعی تقریب کرانے پر مبینہ طور پر اپنے استاد پروفیسر خالد حمید کو قتل کر دیاہے، اس قتل کی وجہ انھوں نے اپنے استاد کی 'مذہب مخالف سوچ' قرار دی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس نوجوان کا بظاہرکسی انتہا پسند تنظیم سے بھی تعلق نہیں ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ اس گھمبیر صورتحال میں تما م کلیدی امور بشمول ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عدم برداشت کے رویئے کی جگہ جیو اور جینے دو کے رویئے کو تقویت دینے کے لیے حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر اتفاق رائے پیداکرنا چاہیے کیونکہ ان معاملات کا تعلق پاکستان کی بقا سے ہے۔