الجزائر اور ہیٹی کے برعکس پاکستان اور بھارت پرامن اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے معرض وجود میں آئے اور تشدد تحریک آزادی کا حصہ نہیں تھا۔ مہاتما گاندھی کو عدم تشدد کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کے لیے سراہا جاتا ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح مذاکرات میں آئینی ذرائع استعمال کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔۔ انہوں نے دونوں ممالک میں مستقبل کے سیاست دانوں اور سماجی تحریکوں کا راستہ طے کیا۔ تاہم، پاکستان اور بھارت دونوں اپنے محروم علاقوں کی شکایات جمہوری طریقے سے دور کرنے میں ناکام رہے، جس کے نتیجے میں وقتاً فوقتاً پرتشدد بغاوتیں ہوئیں۔ پھر بھی، مرکزی دھارے کی سیاست کو دونوں ملکوں میں زیادہ تر جمہوری سمجھاجاتاہے۔ پاکستان کے معاملے پر غور کریں، 1965 سے لے کر اب تک ملک ایک درجن کے قریب ملک گیر سیاسی تحریکوں سے گزر چکا ہے۔ ہر تحریک اپنے بیانیہ میں بنیادی طور پر سیکولر تھی اور اس کا صرف ایک مقصد تھا ، مسند اقتدار پر بیٹھنے والوں کا تختہ الٹنا۔ اصل مقصد اقتدار میں آنا تھا کسی بھی عمل کا تکرار سیکھنے کی کنجی ہے ، لیکن جب مقصد کسی لالچ کے تابع ہو تو تکرار آپ کو کو ئی سبق نہیں سکھاسکتی۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہر سویلین حکومت نے اپنی حکمرانی کے چند سالوں میں اپنی کامیابی کا اثر برقرار نہ رکھ سکی۔ اگرچہ فوجی آمروں کے پاس مزاحمت کو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل اور طاقت موجود تھی، لیکن وہ بھی کمزور ہو گئے۔ نتیجتاً، فلپائن، جنوبی کوریا، چلی اور انڈونیشیا میں اپنے ہم منصبوں کے برعکس، ہمارے آمروں نے جلد ہی خود کو الگ کر لیا۔ پاکستان کے سویلین حکمرانوں اور فوجی آمروں میں فرق صرف یہ ہے کہ معزول فوجی جرنیلوں کی کبھی واپسی نہ ہوسکی ، جب کہ سویلین حکمران واپس آئے بھی تو اپنے سابقہ انجام سے دوچار ہو نے کیلئے۔بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ سویلین حکومتوں کا تختہ الٹنے میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا ہے۔ حیرت ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے بھی سیاسی تحریکوں کی حمایت میں کوئی کردار ادا کیا؟ واقعاتی شوا ہد بتاتے ہیں کہ اکثر حکومتوں کے خلاف کئی طرح کی ملی بھگت ہوتی رہی ہے۔ اس طرح ہر ملک گیر سیاسی تحریک ، ایک ہائبرڈ تحریک ہی تھی، اور ہر ہائبرڈ تحریک نے ایک ہائبرڈ حکومت کو جنم دیا۔ جو چیز پی ٹی آئی کی حالیہ تحریک کو پچھلی تحریکوں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کی سولو فلائٹ ہے۔ ماضی کی تقر یباً تمام سیاسی تحریکیں، اپوزیشن جماعتوں کے متحدہ محاذوں پر مشتمل تھیں ،جن میں غیر پارلیمانی جماعتیں اور وہ لوگ بھی شامل رہے ، جو انتخابات کی سیاست پر یقین بھی نہیں رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک اور میجر اسحاق، افضل بنگش اور فتحیاب علی خان کی مزدور کسان پارٹی اور ان کے حواریوں نے ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی حکومتوں کے خلاف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ٹریڈ یونینز اور صحافیوں کی انجمنیں بھی ان میں شامل ہوئیں۔ تحریکوں میں ان کی شرکت نے تینوں آمروں کے خاتمے میں سب سے مؤثر کردار ادا کیا۔ پی ٹی آئی کی موجودہ سولو’ فلائٹ‘ خالصتاً آرگینک دکھائی دیتی ہے، جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ مقبول اور وسیع ہے۔ اگرچہ کچھ رائے لکھنے والے اس کا موازنہ 60 کی دہائی کے آخر میں بھٹو کے عروج سے کرتے ہیں، لیکن پی ٹی آئی کی مزاحمت کئی حوالوں ے منفرد ہے۔ مثال کے طور پر جب بھٹو نے اپنی پارٹی کا آغاز کیا تو ایوب خان کی پوزیشن کافی کمزور تھی او ر وہ تقریباً کنارہ کش ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ، بھٹو کے عروج سے پہلے، قوم پرست اور ترقی پسند جماعتوں، مزدور یونینوں، طلباء اور صحافیوں نے پہلے ہی ایوب کے دور حکومت کو دھڑکا لگا رکھا تھا۔ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں عوامی لیگ کے مجیب الرحمان اور مولانا بھاشانی نے بھی ایوب کی حکومت کو کافی زد پہنچا ئی تھی۔ بعض اندازوں کے مطابق ایوب مخالف تحریک میں تقریباً 15 ملین افراد نے حصہ لیا تھا۔ فوجی جرنیل بھی چاہتے تھے کہ ایوب خان ریٹائر ہو جائیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سول ملٹری اشتراک عمل میں تھا۔ مارچ 1977 میں ملک کو ایک اور تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نیشنل الائنس (PNA) نامی، نو جماعتی اتحاد بھٹو کو فوجی جرنیلوں کی مدد سے اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوا۔ اسی لئے پی این اے کے رہنماؤں کو بعد ازاں ضیاء حکومت میں شامل ہوتے دیکھنا حیران کن نہیں تھا۔ تاہم، جلد ہی انہی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پی پی پی نے، جسے انہوں نے چند سال قبل معزول کر دیا تھا، 1983 میں تحریک بحالی جمہوریت (MRD) قائم کی۔ تحریک کو بے دردی سے کچل دیا گیا لیکن اس نے جنرل ضیاء کو عام انتخابات کروانے پر مجبور کر دیا۔ 1988 میں ہوائی جہاز کے حادثے میں مارے جانے سے پہلے اس تحریک نے اسے کافی کمزور بھی کر دیا تھا۔ یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے کہ جنرل ضیاء کو کس نے مارا۔ 1988 اور 1999 کے درمیان چار حکومتوں کو برطرف کیا گیا اور اپوزیشن جماعتوں کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کے واضح آثار نظر آئے۔ نئی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ، نواز شریف نے 15ویں آئینی ترمیم کے ذریعے امیر المومنین بننے کی کوشش کی جو قومی اسمبلی سے تو پاس ہو گئی ، لیکن سینیٹ میں شکست کھاگئی۔ مجوزہ ترمیم کی مخالفت کرنے والوں کو ہراساں کیا گیا جس میں این جی اوز، صحافی اور لکھاری بھی شامل ہیں۔ اس جبر نے سب کو ایک مشترکہ مقصد کی طرف ترغیب دی۔ زیادہ تر سیاسی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے راحت کی سانس لی جب جرنیلوں نے بالآخر 1999 میں شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔مارچ 2007 میں جنرل مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو برطرف کر دیا۔ کئی دنوں تک سول سوسائٹی، صحافیوں اور وکلاء نے شاہراہ دستور پر قبضہ کئے رکھا۔ راقم بھی ججوں کی بحالی کے لیے ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں باقاعدہ شریک رہا۔ نہ کوئی کنٹینر تھا اور نہ آنسو گیس کی شیلنگ۔ یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی اور چند مہینوں میں آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ بن گئی۔ (جاری ہے)