آپ عمران خان کے مخالف ہوں یا حامی بحیثیت پاکستانی اپنے وزیر اعظم کی وائٹ ہائوس میں پرتپاک پذیرائی اور عزت افزائی پہ آپ کو دلی مسرت ہونی چاہئے۔بالکل اسی طرح،جیسا کہ ماضی میں ہمارے حکمرانوںکے ساتھ امریکی سربراہوں کا ذلت آمیز سلوک دیکھ کر تکلیف ہوا کرتی تھی۔کسی بھی غیر ملکی دورے پہ موجود ملک کے سربراہ کی حیثیت کسی پارٹی صدر یا سیاسی مخالف کی نہیں بلکہ عالمی محاذ پہ ہمارے جنگی سفیر کی سی ہوا کرتی ہے چاہے ہمارا اس سے شدید سیاسی اختلاف کیوں نہ ہو۔ مجھے نواز شریف کا جھکا ہوا سر اور اوباما کا تنبیہی انداز میں ان کے کاندھے پہ دباو ڈالتا ہاتھ دیکھ کر دلی تکلیف ہوتی ہے۔ موصوف کا پرچی نکال کر اٹک اٹک کر پڑھنا یا عینک لگا کر اوباما کو آموختہ سنانا کسی پروقار قوم کے لئے کوئی دل خوش کن منظر نہیں ہے۔ آپ نے کبھی کسی عزت دار قوم کے سربراہ کی گدی میں کوئی امریکی ہاتھ نہیں دیکھا ہوگا۔ہم نے یہ منظر بھی دیکھا ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ امریکی ہاتھ ہمیشہ ہی ہماری گردن پہ رہا ہے، ہر بار اس منظر سے دلی رنج ہوتا ہے۔ہم ایک عزت دار قوم تھے۔ہمارے سابق حکمرانوں نے ہمارے سر شرم سے جھکائے رکھے۔ کسی امریکی کا وہ بیان آج بھی ریکارڈ پہ ہے کہ پاکستانی اپنے مفاد کے لئے ایک مقدس رشتہ بھی بیچ ڈالتے ہیں۔ زیادہ دور کیوں جائیے ،ٹرمپ نے ہمیں اپنے ٹوئیٹ میں جھوٹا اور مفاد پرست کہا تھا۔ پاکستانی امداد کھا جاتے ہیں، کام ٹکے کا نہیں کرتے۔ اس کاحساب اسی وقت ہمارے وزیر اعظم نے برابر کردیا تھا اور عمران خان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ حساب کبھی برابر نہیں کرتے،دو چار ہاتھ اوپر ہی رکھتے ہیں۔جتنا میں نے صدر ٹرمپ کی شخصیت کو سمجھا ہے، وہ دلیری اور صاف گوئی کی قدر کرنے والے شخص ہیں۔یہی صدر ٹرمپ ہیں جنہوں نے عمران خان سے ملاقات میں کہا پاکستانی اپنے وزیر اعظم کی طرح محنتی،جفا کش اور عظیم لوگ ہیں۔وہ اپنے وزیر اعظم ہی کی طرح اسمارٹ ہیں۔پاکستان کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ایران البتہ بولتا ہے۔کیا آپ کو فرق محسوس نہیں ہوا؟ان بیانات کے پس پردہ مقاصد سے ایک لمحے کو صرف نظر کیجیے۔ محض سفارتی سطح پہ ان الفاظ کی وہ اہمیت ہے جس کا ادراک سابق حکمران نہیں کرپائے۔انہوں نے عمران خا ن کو مقبول وزیراعظم قرار دے کر کیپٹل ایرینا میں ان کے جلسے کی قیمت وصول کروادی ورنہ یہ ایک بہت بڑا رسک تھا۔عمران خان نے ساری عمر رسک ہی تو لیا ہے۔مومن اللہ کے بھروسے پہ رسک لیا ہی کرتا ہے۔ عمران خان نے پاکستان کے لئے اس دورے میں جو حاصل کرنا تھا کرلیا۔ پاکستان کو ایک باوقار اور قابل بھروسہ ملک کا سفارتی درجہ دلانا۔ ہنوز دنیا کی سپر پاور اور جمہوریت کے علمبردار ملک سے مقبول لیڈر کا خطاب حاصل کرنا اور پاک امریکہ تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دینا جو اب سے پہلے آقا اور غلام کے ایسے کلاسیک تعلقات تھے جن کی مثال دی جاتی تھی۔ عمران خان نے واضح کیا کہ ہمیں امداد کی نہیں تجارت اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں وہ امریکہ میں بزنس کمیونٹی سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔پاک امریکہ تجارت کا حجم بڑھانے کی ضرورت پہ میں نے پہلے بھی زور دیا ہے لیکن اس سے قبل یہ کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھا۔امریکہ سے ہمارے تعلقات کی نوعیت ایسی تھی ہی نہیں۔امداد کہاں جاتی تھی اس کا حساب دینے والا کون تھا۔ یو ایس ایڈ کے علاوہ جو کچھ تھا تزویراتی اور عسکری امداد تھی۔ عمران خان کو کانگریس میں بھی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا ہے۔ شخصی کیرزما اور دیانت دار ی دو ایسے وصف ہیں جو عمران خان کو پہلے ہی برتر پوزیشن پہ لا کھڑا کرتے ہیں۔باقی کام ان کی فطری بے ساختگی اور صاف گوئی کرتی ہے۔ پاکستان کے لئے امریکہ کا یہ دورہ اس لحاظ سے اہم نہیں تھا کہ اس میں کسی بڑے بریک تھرو کا امکان تھا۔یہ اس لحاظ سے اہم تھا کہ جہاں امریکہ بدل رہا ہے وہیں پاکستان بھی بدل رہا ہے اور اب تعلقات کی نوعیت امریکہ نہیں پاکستان طے کرے گا۔یہ وہ دلیرانہ قدم ہے جو عمران خان کے علاوہ کوئی اٹھا ہی نہ سکتا تھا۔ درحقیقت یہ وائٹ ہائوس کے عالمی اسٹیج پہ نئے پاکستان کی لانچنگ سیریمنی تھی۔ وہ نیا پاکستان جو غیور بھی ہے اور پراعتماد بھی، وہ پہلے کی طرح ڈو مور پہ یقین نہیں رکھتا البتہ ایک طاقتور ملک کے ساتھ برابری کی سطح پہ دوستانہ تعلقات کا خواہشمند ہے جو امددا نہیں تجارت کا خواہاں ہے۔باقی رہ گئے طالبان، ایف اے ٹی ایف اور دیگر معاملات تو ان کی بھی سن لیجیے۔ عمران خان نے صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں اپنے اس موقف کا اعادہ کیا جس کی وجہ سے ملک میں انہیں طالبان خان پکارا گیا۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ جس نتیجے پہ امریکہ سترہ سال بعد پہنچا ہے، عمران خان کا شروع دن سے یہی موقف تھا۔ بعد از خرابی بسیار امریکہ مذاکرات کی میز پہ ہے اور افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ بھی یہی موقف رکھتے ہیں اور امریکہ کے دنیا بھر میں پھیلے پنجے نکال کر اسے محدود قسم کا طاقتور ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔پینٹاگون اس راہ میں رکاوٹ ہے۔ صدر ٹرمپ اور پینٹاگون اکثر اوقات ایک پیج پہ نہیں ہوتے لیکن عمران خان اور عسکری قیادت ایک پیج پہ ہے یعنی اب امن ہونا چاہئے۔ فاٹا میںا نتخابات ہوچکے ہیں۔عسکری قیادت مزید آپریشن کے حق میں نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ امداد کی ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔طالبان میں عمران خان کے لئے عزت و احترام کا عنصر بہت قوی ہے اور اس کی معلوم وجوہات ہیں۔صدر ٹرمپ کے اس بیان پہ کہ وہ چاہتے تو افغانستان کو کھنڈر بناسکتے تھے لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے، میں نے ذبیح اللہ مجاہد سے بہت سخت ردعمل کی توقع رکھی لیکن حیرت انگیز طور پہ وہ اتنا سخت تھا نہیں ۔اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ طالبان جتنے مذاکرات کی میز پہ موجود ہیں،عمران خان اس سے ایک انچ زیادہ انہیں مجبور نہیں کرسکتے ۔ساتھ ساتھ کابل اور اس کے گردو نواح میں گھمسان کا رن جاری ہے اور پلڑا طالبان کا بھاری ہے۔اس لئے افغانستان کے معاملے میں پاکستان سے کچھ زیادہ کی امید ٹرمپ کو نہیں ہے۔ ایران کے معاملے میں بھی وہ پاکستان سے زیادہ پرامید نہیں ہے اسی لئے خود سعودی عرب پہنچ گیا ہے۔افغانستان میںاسرائیل جنگی محاذ پہ تو موجود ہی تھا، اب سرمایہ کاری کے لئے سرکاری سطح پہ بھی معاہدے کررہا ہے۔پاکستان کے پڑوس میں اب ایسا افغانستان ہوگا جس میں اسرائیل بذات خود موجود ہوگا۔ایف اے ٹی ایف میں امریکہ کو ویٹو نہیں سیاسی رسوخ حاصل ہے۔اس تناظر میں یہ دورہ اہم ہے۔ دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے اس میں جرات مند قیادت پاکستان کے لئے جو کچھ وصول کرسکتی ہے وہ اس کا کھویا ہوا وقار اور دنیا میں اس کا عمدہ امیج ہے ۔ عمران خان نے نہایت مہارت سے دنیا بھر میں نیا پاکستان لانچ کردیا ہے۔