ایک سوال ہے؟ آپ سائنس کے جدید تصورات سے کیسے واقف ہوئے۔ آپ کے بچے جو نئی نئی معلومات حاصل کرتے ہیں ان کے حصول کا ذریعہ کیا ہے۔ آپ سادھ گورو‘ کرشنا مورتی جیسے سماجی سائنسدانوں سے کس طرح واقف ہوئے۔ آپ کو چین کے ان بازاروں کو دیکھنے کا موقع کیسے ملا جہاں کتے‘ چمگادڑ ‘ سور اور چوہوں کا گوشت فروخت ہوتا ہے۔ آپ نے سوئٹزر لینڈ کے دلفریب لینڈ سکیپ کا نظارہ کیسے کیا‘ آپ نے ہالینڈ میں میلوں کے رقبے پر پھیلے پھولوں کے کھیت کس طرح دیکھے۔ آپ کلاسیکل پاکستانی و بھارتی فلمیں دیکھنے کو بے قرار ہوں تو کیسے اپنی خواہش پوری کرتے ہیں۔ آپ نے پٹھانے خاں‘ مائی بھاگی‘ استاد جمن‘ حبیب ولی محمد‘ ریشماں‘ عالم لوہار‘ فیض بلوچ اور حامد علی بیلا کو سننا ہو تو کیا کرتے ہیں۔ آپ 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ میں جیت کا لطف ایک بار پھر اٹھانا چاہیں تو کیا کرتے ہیں۔آپ نے جھارا اور انوکی کے درمیان تاریخی دنگل دیکھنا ہو تو گئے وقت کو کس طرح بلاتے ہیں۔ڈاکٹر ذاکر نائیک‘ جاوید غامدی کی گفتگو سنیں‘ آپ پاکستان میں بیٹھے مقدس مقامات کی زیارت کرنے کے لئے بھی یقینا دوسروں کی طرح یو ٹیوب ہی استعمال کرتے ہیں۔ یو ٹیوب ایک استاد ہے۔ اس نے مجھے ذاتی طور پر کئی چیزوں سے آگاہی دی۔ کالج کے زمانے میں یونیورسٹی کی کبڈی و باڈی بلڈنگ ٹیم کا رکن تھا۔ مصروفیات نے زندگی کو کھیل کے میدانوں سے دور کر دیا ہے۔ فرصت ملے تو جاوید جٹو‘ اچھو بکرا‘ گڈو پٹھان‘ بٹیرا بلوچ‘ سہیل گوندل وغیرہ کی طمانچے والی کبڈی دیکھتا ہوں۔ پنجاب اپنی اصل شکل میں اچھلتا کودتا نظر آتا ہے۔ آرنلڈ‘ لی ہینی‘ شان رے‘ رونی کول مین، ڈورین یٹیس‘ فل ہیتھ کو پوزنگ اور ٹریننگ کرتے دیکھنا ہو تو یوٹیوب سے مدد لیتا ہوں۔باغبانی کا شوق ہے۔ مختلف پودوں کی افزائش کے لئے کیا انتظامات کئے جاتے ہیں۔ ان کے لئے سپرے‘ کھاد اور پانی کا خیال کیسے رکھنا ہے اس کے لئے ہزاروں ویڈیو آپ کو یو ٹیوب پر مل جائیں گی۔ میں نے بہت سے پودوں اور درختوں کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں سائنسدانوں سے رہنمائی اسی یو ٹیوب کے توسط سے پائی۔ یو ٹیوب سے کچھ حلقوں کو شکایت پیدا ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں یو ٹیوب چونکہ اہم ابلاغیاتی ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے اس لئے جونہی اس کے حوالے سے کوئی خدشات کا اظہار کرتا ہے اس معاملے کو اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ جوڑ کر صف بندی کر لی جاتی ہے۔ یو ٹیوب فقط ٹیکنالوجی کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ مولانا طارق جمیل کی ویڈیوز کو کئی ملین افراد سبسکرائب کر چکے ہیں جس پر مولانا کو گولڈن بٹن ملا ہے۔ ہمارے سینئر کالم نگار اوریا مقبول جان کو ایک سال پہلے سلور بٹن دیا گیا۔ آپ جان کر حیران ہوں گے کہ کئی گھریلو خواتین ملبوسات کی سلائی‘ کڑھائی کی تربیت پر مشتمل ویڈیو بنا کر ماہانہ لاکھوں روپے کما رہی ہیں۔ پاکستان کے بہت سے لوگ کھانے پکانے کی تراکیب سکھا کر یو ٹیوب سٹار بن چکے ہیں۔ کورونا کے ایام میں تعلیمی ادارے بند ہیں۔ طلباء کو آن لائن کلاسز میں شریک ہونا پڑ رہا ہے۔ یو ٹیوب پر ہر موضوع کی ویڈیو موجود ہے۔ دنیا کا وہ سکالر جو ایک لیکچر کی فیس کئی لاکھ ڈالر میں لیتا ہے اس کے لیکچر بلا معاوضہ آپ یوٹیوب پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ یو ٹیوب سب کے لئے ہے لیکن آپ کسی کی ویڈیو کا مواد یا بیک گرائوڈ میوزک چراتے ہیںتو شکایت پر آپ کا اکائونٹ بند کر دیا جاتا ہے۔ آپ کسی عقیدے کے خلاف نفرت انگریز گفتگو کرتے ہیں‘ کسی کی تضحیک کرتے ہیں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں تو شکایت پر آپ کا چینل بند کر دیا جائے گا۔ دنیا بھر میں ایک ماہ میں اوسطاً 2ارب افراد یو ٹیوب استعمال کرتے ہیں‘ اربوں گھنٹے کی ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں یوٹیوب کا 70فیصد واچ ٹائم موبائل فون کے ذریعے آتا ہے۔ یو ٹیوب نے ایک سو سے زائد ممالک میں مقامی وژرن رائج کر رکھا ہے۔ پاکستان میں انٹر نیٹ کے 73فیصد صارفین یو ٹیوب استعمال کرتے ہیں۔ یہ تعداد تین کروڑ 25لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی خاص شخصیت یا ادارے پر کسی وجہ سے تبصرہ ہوتا ہے تو کیا یہ قابل قبول ہے؟ اگر وزیر اعظم کا کوئی اقدام عوام کو درست نہیں معلوم ہوتا تو وہ یو ٹیوب پر کسی حد تک بات کر سکتے ہیں۔ سندھ حکومت کی بدانتظامی‘ پنجاب حکومت کی کمزوریوں ‘ بلوچستان کے حالات پر کس حد تک بات ہو سکتی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر حساس قومی چار دیواری کا احترام کرتے ہوئے کہاں تک خاموشی کو اظہار رائے کے حق سے دستبرداری سمجھا جا سکتا ہے۔ بلا شبہ پاکستان کا ہر ادارہ اور ہر شعبہ حساسیت کا شکار ہو چکا ہے۔ مسلح افواج اپنے خلاف تنقید اور پروپیگنڈہ کا جواب دینے کی اہلیت رکھتی ہیں آئی ایس پی آر فوراً صورت حال کو واضح کردیتا ہے لیکن دوسرے ادارے اتنے طاقتور نہیں‘ انہیں اپنا احترام بحال رکھنے کے لئے معمول کے کمزور قانونی عمل سے مدد لینا ہوتی ہے۔ یہ مدد سب کو نہیں ملتی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب جسٹس گلزار احمد نے بجا فرمایا کہ کچھ لوگ یو ٹیوب پر عدلیہ اور ججوں کے خلاف گھٹیا باتیں کرتے ہیں‘ جسٹس ثاقب نثار کو بھی یہی چیلنج لاحق تھا۔ ان کے بعد آصف سعید کھوسہ کو کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ عدلیہ کو ضرور یہ سلسلہ روکنے کے لئے مستعد ہونا چاہیے۔ خاص طور پر پہلے مرحلے میں ان پر گرفت کرنی چاہیے جو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد میڈیا پر تماشا لگاتے ہیں۔ طاقتوروں کو سزا ملی تو باقی خود ہی سمجھ جائیں گے۔ محترمہ ثانیہ ایدرس اس سلسلے میں ضرور متحرک ہوں۔ یو ٹیوب انتظامیہ کوشکایت کر کے نفرت آمیز ویڈیو بند کرائے جا سکتے ہیں لیکن یو ٹیوب کے ذریعے زیادہ تر لوگ سیکھتے ہیں‘ علم حاصل کرتے ہیں۔ 30فیصد کے لگ بھگ اس کا بطور تفریح استعمال کرتے ہیں۔یوٹیوب کی بندش کی بجائے اس کے استعمال کا مواد فلٹر کرنے کی ضرورت ہے۔