تاریخ کی صرف آنکھیں ہوتی ہیں جو دیکھتی ہیں اور محفوظ کر لیتی ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ یہاں سیاست میں وفاداری نام کی کوئی چیز نہیں۔ سیاست اقتدار اور مفادات کے تحفظ کے لئے کی جاتی ہے۔ فلپ پل مین نے کرپشن، حسد اور اقتدار کی ہوس کو اخلاقی گراوٹ کے ایسا گڑھے قرار دیا جہاں دھوکہ اور سازش پر فخر کیا جاتا ہے۔سیاست میں حسد در آئے تو گوجرانوالہ میں ملک کے لئے سرحدوں پر جان قربان کرنے والوں کے نام لے لے کر حساب مانگتی ہے۔ اقتدار کی ہوس غالب آ جائے تو جن سے حساب مانگتی رہی ہو ان کو ہی اقتدار کے لئے سیڑھی بنانے میں عار نہیں سمجھتی۔ مفاد کی بات ہو تو وزارت خزانہ کے ریکارڈ میں ڈکلیئر شدہ قانونی اثاثوں کو لیک کر کے کرپشن کا رنگ دینے کی کوشش کرنے سے بھی گریز نہیںکرتی یہ الگ بات ہے پاکستان کی سیاست پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے۔ نکالا چاہتا ہے کام طعنوں سے تو کیا غالب ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو بے مہر کہنے سے وہ مجبور نہ بھی ہوں پھر بھی دامن پر کیچڑ اچھال کر غلیظ سیاسی اخلاقی اقتدار کا مظاہرہ تو کردیا۔ کیچڑ بھی ان کے ایما پر اچھالا گیا جن کے اپنے پانچ کھرب کے اثاثے بتائے جاتے ہیں۔ اخلاقی غلاظت کے گڑھے میں گرے حکمرانوں کی ڈھٹائی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ حکمران مفادات کا یہ مکروہ کھیل ایسے وقت میں کھیل رہے ہیں جب ملک دیوالیہ پن کے دھانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کو رواں مالی سال میں ہی 22 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں جبکہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 9 7. ارب ڈالر رہ گئے ہیں ان سات یا آٹھ ارب ڈالر میں سے بھی چھ ارب ڈالر ایسے ہیں جو دوست ممالک نے معیشت کو سہارا دینے کے لئے پاکستان کے اکائونٹ میں جمع کروائے ہیں۔ حکومت دوست ممالک کی اجازت کے بغیر ان میں سے ایک ڈالر بھی خرچ نہیں کر سکتی۔ مسلم لیگ ن نے معیشت کے جس جادوگر کو لندن سے بلا کر خزانے کی چابیاں تھمائی تھیں اس کی توجہ معیشت کو پٹڑی پر لانے کے بجائے اپنے مقدمات کے خاتمے اور جن سے حساب لینے کا اس کو فریضہ سونپا گیا ہے ان کو کرپٹ ثابت کرنے پر ہے ۔ یہ اسی اقتدار کی ہوس انتقام اور حسد کا نتیجہ ہے کہ معیشت تنزلی کے گڑھے میں گرتی جا رہی ہے۔وزیر خزانہ کا دعویٰ تھا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ جو ستمبر میں 363 ملین ڈالر تھا اس کو 400 ملین ڈالر سے بڑھنے نہیں دیں گے مگر تجارتی خسارہ اکتوبر میں ہی 567ملین ڈالر تک پہنچ گیا ،صرف اکتوبر میں ہی سرمایہ کاری میں 63 فیصد کمی ہوئی ۔تجارتی خسارے کو کم کرنے کا واحد طریقہ برآمدات میں اضافہ ہے اس میدان میں حکومت کی کارکردگی کا اندازہ برآمدات میں گزشتہ سال اکتوبر کے مقابلے میں رواں برس اکتوبر میں 13فیصد کمی سے لگایا جا سکتا ہے۔ برآمدات میں کمی کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی 62 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔جس ڈار کے ذریعے ڈالر کے زمین بوس ہونے کے دعوے کئے جا رہے تھے اس نے پاکستان کی معیشت کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا ہے کہ عمران خان کے دور اقتدار میں ملک کے ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ 16فیصد تھا اسحاق ڈار کے کمالات سے ستمبر میں پاکستان کا کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ 52 فیصد تک پہنچ گیا ۔ پاکستان کو ڈیفالٹ کروانے میں جلدی کا یہ عالم ہے کہ ایک ماہ 20دن میں ہی کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ کا خطرہ 123 فیصد بتایا جا رہا ہے ۔ اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد چند ماہ میں ہی ملک کے ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ 16فیصد سے بڑھ کر 123فیصد تک کیسے پہنچ گیا۔ حکمران جماعت کے پاس اس کا سیدھا سا جواب یوکرائن روس جنگ کی وجہ سے عالمی کساد بازاری اور کورونا کے بعد عالمی معیشت کا سکڑائو ہو گا مگر تاریخ کی آنکھوں نے کچھ اور مناظر بھی محفوظ کر چھوڑے ہیں۔ نواز شریف جب مشرف دور میں سعودی عرب جلاوطن کئے گئے تو انہوں نے سعودی عرب میں ایک سٹیل مل لگائی تھی۔ جس میں بہت کم ہی پاکستانی ملازم تھے۔ حسین نواز مل کے معاملات دیکھتے تھے۔ان دنوں 14اگست کے روز پاکستانیوں نے یوم آزادی کا کیک کاٹنے کی ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ دروغ برگردن راوی تقریب کے دوران کیک کاٹا جا رہا تھا کہ عین وقت حسین نواز مل میں تشریف لائے انہوں نے نہ صرف یوم آزادی کا کیک ڈسٹ بن میں اٹھا پھینکوا دیا بلکہ کیک لانے والے ملازم کو بھی نوکری سے نکال دیا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب نواز شریف کی حکومت مشرف نے ختم کی تھی۔شریف خاندان سعودی میزبانی میں سرور پیلس میں پرتعیش اور پرسکون زندگی گزار رہا تھا۔ وقت نے کروٹ بدلی اور نواز شریف 2013ء میں پھر اقتدار میں آ گئے ۔نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستان کے قرضوں میں دوگنا اضافہ ہوا۔ اربوں ڈالر ملک سے باہر گئے۔ پھر پانامہ کیس میں نواز شریف اور مریم نوازکو جیل جانا پڑا۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا نواز شریف جیل سے لندن اور مسلم لیگ ن اقتدار میں آ گئی مگر شریف خاندان کو اقتدار میں ہونے کے باجود پاکستان تو کیا لندن میں بھی سکھ کا سانس لینا نصیب نہ ہوا۔ چور چور کی صدائوں نے لندن میں بھی ان کے خاندان کا اس حد تک پیچھا کیا کہ بقول شخصے شریف خاندان کے لندن کے بجائے یورپ کے کسی پرسکون ملک میں کاروبار شفٹ کا سوچ رہا ہے۔ ان افواہوں کو مسترد کرنا اس لئے بھی مشکل ہے کہ سارے کا سارا شریف خاندان لندن سے یورپ یاترا پر نکل چکا۔ اگر حسین نواز کا سعودی عرب کی میزبانی اور سرور پیلس کی پر آرائش زندگی کے دوران پاکستان سے بیزاری کا عالم یہ تھاکہ یوم آزادی کا کیک ڈسٹ بن میں ڈالوا دیں تو آج جب لندن میں پاکستانیوں نے چور چور کے نعروں سے زندگی عذاب بنارکھی ہوتو ان کے وزیر خزانہ کے ہاتھوں سے پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ ہی طاہر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانیوں کے قسمت ایسے ہاتھوں میں دے دی گئی جن کے بارے میں پاکستانی پہلے ہی بقول ساجدہ زیدی یہ دھائی دے رہے تھے: اقتدار و ہوس و شور و منافق نظری جن کا شیوہ رہا وہ پیر مغاں دیکھے ہیں