مجھے نہیں معلوم کہ پنجاب میں آئندہ بلدیاتی نظام کے خدو خال کیا ہوں گے۔ البتہ اتنا اندیشہ ضرور ہے کہ اس کا نہ صرف ملک کی سیاست پر اثر پڑے گا بلکہ بیورو کریسی کا ڈھانچہ بھی اس سے متاثر ہو گا۔ ہمارے ہاں جب بھی بلدیاتی سطح پر کوئی نظام نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ تو اس میں اس وقت کے حکمرانوں کی بدنیتی شامل ہوتی ہے۔ شاید اسی بدیشی کی وجہ سے یہ نظام کبھی آئیڈیل شکل میں نافذ نہیں ہوپایا۔ موجودہ حکمرانوں کی نیت کا اندازہ صرف اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے پورے دعوئوں کے باوجود ابھی تک اس نظام کو نافذ نہیں کر سکے۔ دیکھا جائے تو ان کے پاس اس کا ایک بنا بنایا ماڈل موجود تھا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کا تجربہ خیبر پختونخواہ میں کر چکے ہیں پھر اس کے راستے میں رکاوٹ کیا تھی۔ ہو سکتا ہے اس میں چند تبدیلیاں پنجاب کی صورت حال کے مطابق کرنا مقصود ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو۔ تاہم جب عمران خان نے بڑے دعوے سے لاہور آ کر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ 48گھنٹے میں اس کا ڈھانچہ پیش کریں تو میرے جیسے بعض سادہ لوح شقی مزاجوں نے بڑے اعتماد سے اعلان کیا کہ ایسا نہ کر سکیں گے۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔ سیاسیات کی حرکیات اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اس وقت صوبہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں میں اکثریت تحریک انصاف کے مخالفوں کی تھی۔ اس لئے تحریک انصاف انہیں وہ اختیارات نہیں دینا چاہتی تھی جن کا یہ دعویٰ کرتی رہی ہے۔ یہ صوبے کو لاہور سے بیٹھ کر چلانا چاہتی تھی(بلکہ اسلام آباد سے) لاکھ اعلان کے باوجود کہ ممبران اسمبلی کو فنڈز نہیں دیے جائیں گے۔ یہ ایسا ہی کرنا چاہتی تھی۔ اور وہ فنڈز بھی اپنے ارکان کو دینے پر تلی ہوئی تھی۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ وہ بلدیات کو توڑ کر نئے انتخابات کرائے اور اپنی مرضی کے بلدیاتی ادارے منتخب کرائے۔یہ بھی آسان نہ تھا۔ اس کے لئے جانے کس کس ادارے کی مدد لینا پڑتی۔پھر بھی شور اٹھتا منتخب ادارے توڑ دیے گئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بات کو ٹالنے اور موخر کرنے کا حیلہ اختیار کیا۔ اور اب اعلان کیا ہے۔ 1۔جون تک نئی بلدیات کا قانون بنا دیا جائے گا۔ 2۔ان پر ایک سال کے اندر انتخاب کرانا ضروری ہو گا۔3۔ پھر جو ڈھانچہ سامنے آیا ہے اس میں ضلع یا ڈسٹرکٹ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس پوری گفتگو کا کیا مطلب ہے۔ ایک تو یہ کہ آئندہ انتخاب مزید سال سوا سال کے لئے ملتوی۔ اس وقت تک اس حکومت کو آئے دو سال ہو چکے ہوں گے۔ پھر جو نیا انتظامی ڈھانچہ تجویزکیا گیا ہے۔ آیا وہ قابل عمل ہو گا یا نہیں۔ یونین کونسل کے بجائے دیہات اور محلے کی سطح پر نظام کو لے جانے کا نعرہ بہت اچھا ہے۔ مگر کیا وہاں ایسا انتظامی ڈھانچہ موجود ہو گا جو کاررواں حیات کو رواں رکھ سکے۔ بعض نعرے صرف لگانے کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ اچھا نعرہ ہے کہ ہم اقتدار کو نچلی ترین سطح تک لے جا رہے ہیں۔ مگر اس کا دوسرا مطلب ہے کہ بغیر کسی ڈھانچے کے پارٹی کارکنوں کو اہمیت دے دی جائے گی۔ عملی طور پر ایسا ہی ہو گا۔ میرا خیال تھا‘ پورا نظام سامنے آ جائے تو بات کرتے ہیں‘ مگر اس وقت اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ مجھے یاد ہے کہ جب جنرل مشرف شہری حکومتوں کا نظام لے کر آ رہے تھے تو ان کے ایک خاص نمائندے جنرل تنویر نقوی اس کے سربراہ تھے۔ میں نے ایک مجمعے میں عرض کیا تھا کہ جنرل نقوی کے ہوتے مشرف کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سے کئی بار انٹرایکشن ہوا مثال کے طور پر وہ یہ نعرہ لے کر آئے کہ لاہور‘ کراچی وغیرہ میں میئر کا انتخاب براہ راست ووٹ سے ہو گا تاکہ عام آدمی بھی جیت سکے۔ وگرنہ بالواسطہ انتخابات میں آپ چند افراد کو خرید کر مسند اقتدار تک جا پہنچتے ہیں ان سے فوراً عرض کیا کہ کراچی میں اس وقت ایم این اے کی تعداد 13تھی۔ ایک ایم این اے کا انتخاب عام آدمی کے بس میں نہیں‘ آپ کے خیال میں 13ایم این ایز کو ملا کر جو ایک حلقہ انتخاب بنے گا۔ کیا اتنے بڑے حلقہ انتخاب میں کوئی عام آدمی جیت سکے گا۔ دوسرے یہ کہ اس اعتراض کا مطلب کہ بالواسطہ انتخاب سے افراد خریدے جا سکتے ہیں یہ بناتا ہے کہ ملکی سطح پر پارلیمانی نظام بھی غلط ہے۔ یہاں صدارتی نظام آنا چاہیے۔ کیا آپ اس طرف جا رہے ہیں یہ نہیں کہ میں براہ راست انتخاب کے خلاف ہوںصرف ان کی دلیل کا پوسٹ مارٹم کر دیا تھا کہ آپ کے دلائل کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ یہ کئی لحاظ سے بہت اچھا نظام تھا‘ مگر اس میں بھی بیورو کریسی نے پورے نظام کو بدل دیا گیا تھا۔ ڈی سی کو ڈی سی او‘ ایس پی کو ڈی پی او اور جانے کن کن پیراڈی میں بدلا گیا جو آج تک کوئی اثرات نہیں لا سکا۔ یہ صرف ایک نیا نظام لانے کی بات نہ تھی بلکہ بیورو کریسی کے پورے ڈھانچے کو بدلنے کا نظام تھا۔ اس میں بڑے لطیفے ہیں مثلاً پولیس کا سربراہ میئر کے ماتحت ہو گا مگر اس کے تبادلے اور ترقی کا تعلق اس سے نہیں ہو گی۔ اس کی اے سی آر پولیس میں اس کا افسر لکھے گا۔ ترقیاتی منصوبے یہ بلدیاتی ادارے بنائیں گے مگر کام کرانے کے بعد چیکوں پر دستخط کوئی بیورو کریٹ کرے گا۔ پولیس کو آزاد کر دیا گیا کہ پہلے دور غلامی کا ماڈل تھا۔ برطانیہ نے لندن پولیس کے قانون کے بجائے سکاٹ لینڈ کا قانون نافذ کیا۔ بتایا گیا ایک پولیس کمشن بنے گا جو اس کی نگرانی کرے گا۔ وہ کمشن تو بنا نہیں اور پولیس بالکل بے لگام ہو گئی۔ شہباز شریف آئے تو انہوں نے پرانے نظام کی پوند کاری کرنا چاہی۔ انتظامی ڈھانچے کے حوالے سے ہر ایک نے نئی نئی باتیں سوچی ہیں۔ بے نظیر ڈسٹرکٹ گورنر کی بات کرتی رہی ہیں۔ بھٹو صاحب تو خیر ایوب خاں کے زمانے میں پارٹی آمریت کا سوچتے تھے۔ کہ ہر ضلع کے ڈی سی کو پارٹی سیکرٹری بنا دو۔ پھر اقتدار میں آ کر نظام بدلا تو سب کچھ تباہ کر دیا کیسے‘ اس پر کئی بار بات کر چکا ہوں مسئلہ یہ ہے کہ بلدیاتی نظام لانے والے صرف یہ سوچتے ہیں کہ یہ ان کی سیاست کے کیسے کام آئے گا اور دوسرے یہ کہ وہ بیورو کریسی کو اس طرح الٹ پلٹ کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے تابع رہے ۔ پرویز مشرف نے اس پورے نظام میں صوبوں کو نکال دیا تھا۔ وفاق براہ راست ان اداروں سے معاملات کرتا تھا اور یہی اس پر اعتراض تھا اب صوبے اس نظام سے وفاق کو بالکل فارغ کئے بیٹھے ہیں صوبے کا جو دل چاہتا ہے وہ اپنے مطابق اپنی پسند کا نظام لے آتا ہے۔ گزشتہ کئی برس پہلے تو انتخابات ہونے نہیں دیے گئے۔ ہوئے تو ہر صوبے کا اپنا نظام تھا۔ سندھ پنجاب خیبر پختونخواہ بلوچستان اپنی اپنی مرضی کے مطابق ان بلدیاتی اداروں کو لے کر چلتے رہے۔ کسی نے ان کی سرپرستی کی‘ کسی نے ان سے خدمت لینے کے طریقے ڈھونڈے نیا پاکستان آیا ہے تو وہ اپنا ڈھانچہ کندھے پر اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ انہیں نہ اس کی سوجھ ہے نہ ان کا ہاتھ اصل مسئلے تعلق رہا ہے۔ وہ بس ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اس نظام سے نہ صرف مقامی ڈھانچہ تلپٹ ہوتا ہے‘ بلکہ نوکر شاہی کا سارا سٹراکچر بھی تہہ و بالا ہو جاتا ہے۔ اس وقت کہا یہی جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت بالخصوص اس وقت تک بلدیاتی انتخابات کو ٹرخائے گی جب تک یہ ایسا کر سکی اور قومی اور صوبائی اسمبلی کے اپنے منتخب نمائندوں ہی کے ذریعے کام چلاتی رہے گی۔ یعنی وہ نظام چلائے گی جس کی یہ مخالفت کرتی رہی ہے اور جب اسے نافذ کرے گی تو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ہر جگہ ان کی پارٹی کا بول بالا ہو اور اس کے ذریعے ایک ایسا ماڈل تشکیل دیا جائے جو آئندہ انتخابات جیتنے میں مدد گارہو سکے۔ اس وقت تک تمام راہیں اسی منزل کی طرف جاتی ہیں۔ ڈر یہ ہوتا ہے کہ پہلے سے موجود انتظامی ڈھانچہ بھی ازسر نو تشکیل پاتا ہے۔ بھارت نے بیورو کریسی میں کئی اصلاحات کی ہیں۔ مگر بنیادی ڈھانچے کو نہیں بدلا۔ ہمیں مگر یہ بدلنا ہوتا ہے تاکہ ہم اپنے مقاصد پورا کر سکیں۔ اسے صرف ابتدائیہ سمجھیں‘ اس پر باربار بات کی ضرورت ہے۔ اتنی ہی جتنی ملکی معیشت پر۔