اہل مدارس کے حوالے سے بات کرنا ہمارے ہاں ہرکوئی اپنا استحقاق سمجھتاہے لیکن اس طبقے کے حق میںکلمہ ِ خیر نہ کہنے پرگویاسب نے اجماع کیاہے۔ باالخصوص نائن الیون ڈرامے کے بعدنہ صرف یہ طبقہ ہرطرف سے زیادہ زیرعتاب رہا بلکہ ان اداروں کے تعلیمی نصاب میں بھی کیڑے نکالنے کی رَیت چل پڑی ۔ سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ مدارس کے نصاب سے ہر وہ شخص زیادہ الرجک نظرآتاہے جن کومذکورہ نصاب کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں۔ موجودہ حکومت میں ایک اہم عہدے پر براجمان وزیرصاحب نے تو گزشتہ دنوںیہ دعویٰ کرلیاکہ مدارس کا نصاب امریکہ کی نبراسکا یونیورسٹی میں تیار ہواتھا۔ ذمہ دار حلقوں کی طرف سے ایسے غیرذمہ دارانہ اور بے سروپا دعوے نہ صرف پوری مذہبی کمیونٹی کے دکھ کاباعث بنتے ہیں بلکہ مدارس کے بارے پہلے سے قائم غلط تاثرات کو بھی مزید پذیرائی ملتی ہے۔ موصوف وزیرصاحب کے اسی بیان ہی کا کرشمہ تھا کہ بہت سے دانشور بھی اُن کی تائید میں بول اٹھے کہ ’’ہم نے پہلے کہا تھا کہ مدرسوں کے نصاب میں بہت کام باقی ہے لیکن اُسی وقت ہماری آوازپر کان نہ دھرا گیا اور آج حکومت خود اعتراف کررہی ہے ‘‘۔موصوف وزیر صاحب کے دعوے کے جواب میں پہلے تو صرف یہ کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ جو ادارے ’’دینی مدارس‘‘ کے نام سے موسوم ہیں اس میں امریکی ساختہ نصاب پڑھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ جن اداروں میں امریکہ ساختہ نصاب پڑھایا جاتا تھا،وہ مدارس توہوسکتے ہیں لیکن ’’دینی مدارس‘‘ ہرگز نہیں۔ دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کا بیشتر حصہ نہ صرف امریکہ کی نبراسکا یونیورسٹی سے بہت پہلے موجودتھا بلکہ اس نصاب میں شامل اکثر کتابیں امریکی ریاست سے بھی پرانی ہیں۔ امریکہ کی مغربی ریاست میں واقع نبراسکا یونیورسٹی 15فروری1869کو قائم ہوئی تھی جبکہ پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مدرسوں میں پڑھایا جانے والا نصاب مذکورہ یونیورسٹی کے قیام سے بھی تین سو سال پرانا ہے۔ اس نصاب کانام درس ِ نظامی ہے جوکہ ملا نظام الدین سہالوی ؒ لکھنوی کی طرف منسوب ہے۔ مُلا نظام الدین سہالوی لکھنو کے معروف تعلیمی سلسلے فرنگی محلہ کے بانی شمار ہوتے ہیں جو16مارچ 1677ء کوصوبہ اترپردیش کے ضلع بارہ بنکی کے قصبے سہالی میں پیدا ہوئے تھے ۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہؒ1703-1762) ئ) جیسی متبحرعلمی شخصیت دینی علوم کی ترویج میں مصروف تھے ۔ دہلی میںحضرت شاہ صاحب کے حلقہ درس میں زیادہ توجہ قرآن وسنت کی تعلیم پر دی جاتی تھی جبکہ لکھنو کے فرنگی محلہ میںمولانا نظام الدین سہالوی ؒکے حلقہ درس پر ماوراء النہر (ساتویں صدی عیسوی) کا رنگ زیادہ غالب تھا یوں ان کے ہاں فقہ ، اصول اور معقولات پرزیادہ توجہ دی جاتی تھی۔مولانا سہالوی ؒنے اسی زمانے میں باقاعدہ طور پر ایک الگ نصاب مرتب کیا جوان کی زندگی میں پہلی مرتبہ دینی مدارس کیلئے متفقہ نصاب ٹھہرا۔اس نصاب میں کم وبیش پندرہ علو م وفنون( تفسیر، حدیث ، فقہ ، اصول فقہ ، علم نحو ، علم صرف ،ادب ، علم میراث ، علم بیان، حکمت، منطق، فلکیات، ریاضی، علم عروض وقوافی)کی مختلف کتابیں شامل کی گئیں۔ مولانا سہالوی ؒ کامرتب کردہ نصاب درس نظامی آج بھی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مدارس کا نصاب ہے جس کو ہم تین ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا دورتقریباً 1720ء سے دارالعلوم دیوبند کے قیام 1866ء تک جاپہنچتاہے ۔ اس عرصے میں درس نظامی میں تفسیر کے باب میں علامہ جلال لدین سیوطیؒ (1445-1505ئ) اورعلامہ جلال الدین محلیؒ 1389-1459ء کی مشترکہ تفسیر ’’جلالین ‘‘کے علاوہ قاضی ناصرالدین بیضاوی ؒ(1226-1286ئ) کی تفسیر بیضاوی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ حدیث میں صرف ابوعبداللہ محمد بن عبداللہؒ(860ھ)کی تالیف ’’ مشکٰوۃ المصابیح‘‘ اس نصاب میں شامل تھی ۔فقہ میں علامہ برہان الدین مرغینانیؒ 1136-1197)ئ) کی چار جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب’’ الہدایہ ‘‘کے علاوہ عبیداللہ بن مسعودؒ( 1346ء )کی ’’ شرح وقایہ ‘‘بھی درس نظامی کا حصہ تھی ۔ اسی طرح اصول فقہ میںعلامہ سعدالدین تفتازانیؒ 1389) 1326-ئ) کی تصنیف’’تلویح توضیح‘‘، شیخ احمد بن ابی سعید ملا جیونؒ-1885) 1718ئ) کا نورالانوار،قاضی محب اللہ بہاریؒ1717 ء کی تصنیف ’’مُسلم الثبوت ‘‘ جیسی کتب دور اول کے درس نظامی میں شامل تھیں۔ عربی زبان وگرائمر کے باب میںچونکہ علم نحو اور علم صرف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے یوں نَحومیںسید شریف جرجانی 1339-1414)ء ) کی تصنیف ’’نحومیر‘‘، حسین بن عبداللہ نوقاتیؒ (1520ئ) کا ’’ شرح مائئۃ عامل‘‘ ، ابوحیان محمدبن یوسفؒ (1344ئ) کا ’’ہدایۃ النحو‘‘، علامہ ابن حاجبؒ 1174-1249)ء کا ’’کافیہ‘‘ اور علامہ نورالدین عبدلرحمن جامیؒ 1414-1492ء کی ’’شرح جامی‘‘ پڑھانا معمول تھا۔جبکہ صرف میں ملاحمز ہ بدایونی ؒکی کتاب ’’میزان‘‘ ،ملاحمیدالدین کی کتاب منشعب، سید شریف جرجانی کا ’’صرف میر‘‘،سراج الدین اودھی کا پنج گنج ، ظہیر بن محمود بن مسعود کا ’’زبدہ‘‘، قاضی علی اکبر حسینی الہ آبادیؒ کی کتاب ’’فصول اکبری ‘‘ اور ابن حاجب ہی کا ’’شافیہ‘‘ درس نظامی میں شامل تھے۔ بلاغت میں علامہ سعدالدین تفتازانیؒ کی تصنیف کردہ مشہورکتاب مختصرامعانی اور مطوَل‘‘ اور علم کلام میں بھی علامہ تفتازانی ؒکی تالیف کردہ کتاب ’’شرح عقائدنسفی‘‘ کے علاوہ جلال الدین دوانیؒ (1502ئ) کا ’’ عقائد جلالی‘‘ ،سید شریف جرجانیؒ کی تالیف ’’شرح مواقف‘‘ اور میر محمد زاہدہروی ؒ(1690ء )کی تصنیف’’ میر زاہد‘‘ جیسی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ (جاری ہے)