سٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ کا ایک فقرہ ملاحظہ فرمائیے‘ کہا ہے کہ مہنگائی ہدف سے زیادہ ہو گئی۔ ہدف تو اپنا اپنا ہے بھائی۔ ممکن ہے سٹیٹ بنک نے کسی اور ہدف کا سوچا ہو جس سے مہنگائی بڑھ گئی ہو لیکن اصل بات تو اس ہدف کی ہے جو خاں صاحب نے طے کیا ہے اور حالات سے لگتا ہے کہ ابھی کہاں‘ ابھی تو ہدف کا پندرہ بیس فیصد ہی حاصل ہوا ہے۔ ساڑھے چار سال کے حساب سے ستر اسی فیصد ہدف تو ابھی باقی ہے۔ ریاست مدینہ کا ایک حامی گزشتہ روز بتا رہا تھا کہ لوگوں میں زہدو تقویٰ لانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں پیٹ پر پتھر باندھ کر کام کی عادت ڈالی جائے۔ حامی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ پیٹ پر پتھر بندھا ہو تو کوئی کام کرنے کے قابل ہی کہاں رہے گا۔ اسے تو چودھویں کا چاند بھی آسمان سے لٹکتی ہوئی روٹی نظر آئے گا‘ جسے پانے کی جستجو میں وہ خود بھی اوپر چلا جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ شرح ترقی جو دور گزشتہ میں ساڑھے پانچ فیصد تھی۔ اب کے تین ساڑھے تین فیصد کے درمیان رہے گی۔ یہاں بھی ہدف اپنا اپنا والا معاملہ ہے۔ خاں صاحب کا ہدف تو دو فیصد کے اندر ہی لگتا ہے۔ وہ خود بار بار ایسے اقوال زریں ارشاد فرما چکے ہیں کہ ترقی ‘ ترقیاتی کاموں سے نہیں آتی۔ رپورٹ میں ایک فقرہ اور بھی ہے جس کے آخر میں ایکسکلے میشن مارک(نشان حیرت) تو نہیں ہے بین السطور صاف نظر آتا ہے۔ لکھا ہے کہ ہر طرح کی ترقیاتی کٹوتیوں کے باوجود مالیاتی خسارہ قابو سے باہر ہے۔ ’’کے باوجود‘‘ ان دو الفاظ سے پہلے’’بے تحاشا ٹیکسیشن اور بلوں میں بے دریغ اضافے‘‘ کے لفظ بھی لگا دیے جائیں تو فقرہ زیادہ بامعنی ہو جائے گا۔ نشان حیرت تو یہ بھی ہے کہ عوام کی جیب سے رقوم نکالنے کے لامتناہی سلسلے اور غیر ملکی قرضوں پر قرضے لئے جانے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ نہیں رہے‘ کم ہو رہے ہیں۔ یعنی یہ سوال اٹھے لگا کہ اتنا پانی آخر کہاں مر رہاہے۔ نشان حیرت کا ایک حاشیہ بعض محب وطن ٹاک شو پرسن بھی لکھ رہے ہیں۔ یوں تو دو تین کو چھوڑ کر سارے ہی ٹاک شو پرسن محب وطن ہیں لیکن دس بارہ ان میں ایسے ہیں کہ انہیں شدید محب وطن کہا جانا چاہیے۔ تو ان میں سے کم از کم چار شدید محب وطن ٹاک شو اینکر ہفتہ بھر سے سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر پیسہ جا کہاں رہاہے۔ بھئی ناظرین سے تو یہ سوال مت پوچھو‘ آپ پنامہ ایکشن پلان کے رازداروں میں سے ہو۔ اب بھی جو ہو رہا ہے وہ اسی ایکشن پلان کے تتمے کا ابتدائیہ ہے۔ پوچھو مت‘ بتائو کہ کہاں جا رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایک اخباری رپورٹ ہے کہ پنجاب میں 38پارلیمانی سیکرٹری دو مہینے سے کوئی کام کئے بغیر تنخواہیں لے رہے ہیں اور مجموعی طور پر کروڑوں روپے ہڑپ کر چکے ہیں۔ اس لئے کہ ان کی تقرری تو ہو گئی۔ محکمہ نہیں ملے۔ یعنی یہ نہیں بتایا گیا کہ انہیں کام کیا کرنا ہے۔ عرض ہے کہ جب کام کئے بغیر کام نکل رہا ہو تو کام کرنے کی ضرورت ہی کہاں رہ جاتی ہے۔ مزید عرض ہے کہ 38پارلیمانی سیکرٹری تو اس لئے کام نہیں کر رہے کہ انہیں محکمے الاٹ نہیں ہوئے۔ وزیروں کا بتائیے جنہیں محکمے الاٹ ہو گئے لیکن وہ پھر بھی کچھ نہیں کر رہے اور ذرا کان میں بتادیجئے کہ وزیر اعلیٰ کیا کر رہے ہیں؟ پھر درجنوں مشیر‘ اتنے ہی معاونین خصوصی بھی تو ہیں جو تنخواہیں ڈکار رہے ہیں‘ ان کی کاکردگی پر کیا فرماتے ہیں؟ وفاق کی جمبو سے بھی بڑی کابینہ کا ذکر ابھی رہنے دیجیے۔ ٭٭٭٭٭ کلاس 2016ء استاد شاگرد سے: اس فقرے کا انگریزی ترجمہ کرو۔ کام ہو رہا ہے اور ہوتا ہی جا رہا ہے۔شاگرد۔ ورک از بئینگ ڈن اینڈ ڈن ڈناڈن‘ ڈن ڈناڈن ۔کلاس 2019ء استاد انگریزی میں ترجمہ کرو۔ سرمایہ ملک سے بھاگ رہا ہے اور بھاگتا ہی جا رہا ہے۔شاگرد:دی کیپٹل ان رننگ اوے اینڈ رن رنارن‘ رن رنارن ٭٭٭٭٭ بلاول بھٹو زرداری کا ٹرین مارچ سندھ میں مکمل ہو گیا۔ ہر سٹیشن پر جیالوں کا زبردست ہجوم تھا‘ عوام نے ہر جگہ ان کی پرجوش پذیرائی کی۔ حکومت نے بلاول کو ’’زیرو‘‘ کا خطاب دیا۔ معلوم نہیں تھا کہ سندھ کے عوام ’’زیرو‘‘ کو اتنا پسند کرتے ہیں۔ لگتا ہے‘ انہیں ’’ہیرو‘‘ کی اتنی قدر نہیں ہے بلکہ نعروں سے تو لگتا ہے کہ زبردست بے قدری ہے۔ پنجاب میں خیر مقدم کیسا ہو گا۔ دیکھنا باقی ہے‘ لیکن ایک بات طے ہے‘ اگر یہاں بھی استقبال پرجوش اور پرہجوم ہوا تو حکومتی وزیر کہیں گے‘ یہ سب مسلم لیگ ن کے کارکن تھے جو پیپلز پارٹی کے جھنڈے اٹھا کر آ گئے۔ بلاول نے اپنے خطاب میں ’’نیب‘‘ پر ناروا چڑھائی کی۔ کہا کہ نیب کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ ’’سلیکٹڈ‘‘ وزیر اعظم کو مضبوط کرے۔ یہ کہنے کے بجائے بلاول کو نیب کی تحسین کرنی چاہیے تھی کہ وہ دی گئی ذمہ داری کو کس حسن و خوبی اور انتھک محنت سے پورا کر رہا ہے ع مرے بت خانے میں تو کعبے میں گارڈ برہمن کو یہ الگ بات ہے کہ نیب کی محنت کا الٹا اثر ہو رہا ہے‘ حکومت مضبوط کم ‘بدنام زیادہ ہو رہی ہے لیکن اس سے نیب کی ’’نیک نیتی‘‘ پر حرف نہیں آتا۔ بلاول مہنگائی کے خلاف بھی خوب بولے۔ مہنگائی کے خلاف ان دنوں جماعت اسلامی سب سے زیادہ بول رہی ہے لیکن مسلم لیگ ن خاموش ہے۔ شاید ملنے والے ریلیف نامے کی ایک شرط یہ بھی ہے۔ واللہ اعلم۔ مہنگائی سے یاد آیا کل ہی حکومت نے بیان دیا ہے کہ بجلی چار پانچ روپے فی یونٹ مہنگی کریں گے لیکن مرحلہ وار‘ سال بھر کے اندر۔ یعنی قسطوں میں موت۔ قسط وار ڈرامے کا اپناہی مزا ہوتا ہے۔ عوام اس مزے کے لئے تیار رہیں۔ ٭٭٭٭٭ چودھری شجاعت نے کہا ہے کہ بلاول بچپن میں ٹرینوں سے کھیلتے تھے اب ٹرینوں کا مارچ کر رہے ہیں۔ اپنا اپنا شوق ہوا کرتا ہے