سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے جناب الطاف حسن قریشی کی شاندار اور مفصل کتاب ’’مشرقی پاکستان ۔ٹوٹا ہوا تارا‘‘پر اگلے روز ایک مختصر نشست ہوئی، الطاف صاحب کے علاوہ جناب فرید پراچہ، پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے سابق پروفیسراور کالم نگار ڈاکٹر مجاہد منصوری، کالم نگار قاضی منشا اور دیگر احباب شریک ہوئے۔ الطاف صاحب نے کتاب کے حوالے سے کچھ گفتگو کی، اپنی غیر معمولی یاداشت کو کھنگالتے ہوئے بعض اہم واقعات سنائے اور سوالات کے جواب بھی دئیے۔ الطاف قریشی صاحب کی کتاب پڑھتے ہوئے بار بار احساس ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کا سانحہ دراصل ہماری پوری اشرافیہ، ریاستی اداروں، طاقتور شخصیات اور ہر اس فرد کی ناکامی تھی جو تھوڑا بہت بھی اثرورسوخ رکھتا تھا۔ یوںمحسوس ہوتا ہے کہ سامنے دیوار پر انجام لکھا تھا ، مگر ہمارے صاحبان اقتدار آنکھیں بند کئے مست آگے چلتے رہے۔ کسی کو پروا نہیں تھی کہ جو ہو رہا ہے یہ تباہ کن ہے۔نتیجے میں تباہی اور ذلت انگیز بھیانک انجام ہوگا۔بچنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔بہت سے فیکٹرز اکھٹے ہوگئے، یوں کمزور کڑیوں پر مشتمل ایسی زنجیر بن گئی ، جومشکل اور فیصلہ کن وقت آنے پر ٹوٹ کر بکھر گئی ۔ جو پاکستان قائدین نے بنایا تھا، وہ دو لخت ہوگیا۔ افسوس ہم نے اس سے کچھ نہیں سیکھا۔ الطاف صاحب نے بتایا کہ وہ چونسٹھ (1964)میں مشرقی پاکستان پہلی بار گئے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے بعض طلبہ نے انہیںایک نشست کے لئے مدعو کیا۔ الطاف صاحب ڈھاکہ یونیورسٹی کے ہاسٹل چلے گئے۔ وہاں پر ان نوجوانوں نے مشرقی پاکستان کی محرومیوں اور مغربی پاکستان کے ظلم کی طویل داستان بیان کی، وہ اعداد وشمار جو مشرقی پاکستان میں ہر ایک کو ازبر رہتے ۔ان کے لہجے میں آگ کی سی تپش اور فقروں میں خنجر کی کاٹ تھی۔وہ کئی گھنٹے بولتے رہے۔ اپنی تمام گفتگو کا نچوڑ ان لڑکوں نے یہ نکالا کہ اب ہم مزید نہیں رہ سکتے ، مشرقی پاکستان کو آزاد کرا کر دم لیں گے۔ الطاف صاحب اس پر حیران ہوئے، انہوں نے کہا کہ تم لوگ چند لڑکے ہو جبکہ حکومت اور ریاستی طاقت، اتنی بڑی فوج ہے، ان سب کا مقابلہ کیسے کر پائو گے؟ لڑکے اپنے عزم پر قائم رہے توا لطاف صاحب نے صحافیانہ انداز میں کریدنا شروع کیا ۔اس پر جذباتی ہوکر ایک دو لڑکے اپنے کمروں سے چند ایک خفیہ نقشے لے آئے اور انہیں میز پر بچھا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس نقشے میں مشرقی پاکستان کی تمام عسکری تنصیبات کا ذکر ہے اورفلاں میں کہاں کہاں پر کون سے پل ہیں، جنہیں توڑ کر تمام رابطے منقطع کئے جا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ان نوجوانوں کا دعویٰ تھا کہ ہم چند گھنٹوں میں مغربی پاکستان کی ریاستی طاقت کو گھٹنوں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ خیر کسی قرینے سے بات ختم کر کے الطاف صاحب نے واپسی کی راہ لی۔ ان لڑکوں نے کہا تھا کہ آپ نے اس پر لکھنا نہیں ہے، ہم آپ سے آئندہ بھی رابطہ رکھیں گے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے بتایا کہ واپسی پر میں نے اردو ڈائجسٹ میں مشرقی پاکستان کے حالات پر سفرنامہ لکھا، مگر یہ واقعہ دانستہ نہیں لکھا۔تاہم ان دنوں جس اہم مقتدر شخصیت سے ملاقات ہوئی، اسے یہ سب تفصیل بتائی اور ہوشیار ، تیار رہنے کا مشورہ دیا۔ ہر ایک نے ٹھٹھے میں بات اڑا دی کہ یہ چند لڑکے کیا کر سکتے ہیں؟ الطاف قریشی صاحب کے بقول اس میں چند سال تو لگ گئے مگر بعد میں مکتی باہنی نے جو دس گیارہ ماہ گوریلا جنگ لڑی، وہ انہی نقشوں کی بنیاد پر لڑی۔ الطاف صاحب نے بڑے تاسف سے بتایا کہ جب شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات پیش کئے تھے تو اردو ڈائجسٹ میں انہوں نے اس پر تفصیلی تجزیہ لکھا، مگر حیرت کی بات ہے کہ مغربی پاکستان میں چھ نکات کا تجزیہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی گئی۔ الطاف قریشی صاحب نے ایک اور ایسی بات بتائی ، جو حیرت انگیز اور نہایت افسوسناک تھی۔ایڈ مرل ایس ایم احسن جو مشرقی پاکستان کے گورنر تھے،، ان کی روایت ہے کہ الیکشن کے بعد جب مارچ میں صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان ڈھاکہ میں تھے، انہوں نے عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کے لئے جانا تھا، روانگی سے چند منٹ پہلے جنرل یحییٰ خان نے ایڈمرل احسن سے کہا ،یہ تو بتائو کہ یہ چھ نکات کیا بلا ہیں ؟ ایس ایم احسن بھونچکا رہ گئے کہ صدر نے شیخ مجیب سے مذاکرات کے لئے جانا ہے اور بنیادی محور چھ نکات ہی ہوں گے اور انہیں سرے سے معلوم ہی نہیں کہ وہ نکات ہیں کیا۔انہوں نے چند منٹوں میں جتنا ایک بتایا جا سکتا تھا بتایا۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جنرل یحییٰ کو کیا سمجھ آیا ہوگا؟ ’’مشرقی پاکستان ، ٹوٹا ہوا تارا‘‘ کو جس قدر میں نے پڑھا، میرے اوپر بہت سی نئی حقیقتیں کھلیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ آئی کہ سقوط ڈھاکہ سولہ دسمبر 1971 کو ہوا، اس سے ایک سال پہلے 1970 کے الیکشن ہوئے جبکہ مارچ 1969کو جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا تھا، خرابی مگر طویل عرصے سے چل رہی تھی۔ ہم لوگ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب گنواتے ہوئے انہی دوبرسوں کا عمومی تجزیہ کر ڈالتے ہیں۔ اکثر لکھنے والے علیحدگی کے تین بڑے کرداروں مجیب، بھٹو، اندرا گاندھی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد مگر کئی برس بلکہ شائد ایک ڈیڈھ عشرہ پہلے رکھ دی گئی تھی۔ درحقیقت مشرقی پاکستانی کئی سال پہلے پاکستان سے یا یوں کہیے کہ مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوچکے تھے۔ اس لئے ذمہ دار کرداروں کی فہرست طویل ہے۔ جنرل ایوب خان کا بڑا حصہ ہے اور ان سے پہلے والوں کا بھی۔ الطاف قریشی صاحب کا کہنا تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی پاکستان سے جذباتی علیحدگی 1952ء میں ہوئی جب بنگلہ زبان کے مسئلے پر وہاں تحریک میں پولیس نے گولی چلائی، بنگالی طلبہ ہلاک ہوئے ، جس کی یاد میں مینار شہدا ء بنا۔ مشرقی پاکستانیوں کی انتظامی علیحدگی 1962 میں ہوئی جب جنرل اعظم خان کے دور میں مشرقی پاکستان کو انتظامی طور پر مکمل الگ کر دیا گیا۔ اس سے پہلے مشرقی پاکستانی افسر مغربی پاکستان اور مغربی پاکستان کے افسر مشرقی پاکستان تعینات ہوتے رہتے تھے، یوں دونوں اطراف سے واقفیت رہتی اور رابطہ بھی برقرار تھا۔ جنرل اعظم خان کو ہمارے ہاں بہت مثبت کردار کے طور پر لیا جاتا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں مقبول تھے۔ یہ بات مگر کم لوگ جانتے ہیں کہ سن آف سوائل کا نعرہ پہلی بار ان کے دور میں لگا ۔جنرل اعظم نے اپنی ذاتی مقبولیت بڑھانے کی خاطر کئی اہم چیزوں پر سمجھوتے کئے۔ الطاف قریشی صاحب کے بقول 1970 کے الیکشن میں عوامی لیگ کی لینڈ سلائیڈ وکٹری سے مشرقی پاکستانیوں کی سیاسی علیحدگی ہوئی، مگر ان کی جذباتی ، انتظامی اورقلبی علیحدگی کئی سال پہلے ہوچکی تھی۔ اس قدر شدید نفرت، عدم اعتماد ، غصہ اور فرسٹریشن مشرقی پاکستان میں موجود تھا کہ چیزیںریورس نہیں ہوسکتی تھیں۔مجیب الرحمن بھی یوٹرن نہیں لے سکتا تھا۔ میں نے سوال پوچھا کہ اگر مجیب الرحمن کو مینڈیٹ کے مطابق جنرل یحییٰ خان وزیراعظم بنا دیتے تو کیا پاکستان بچ جاتا؟ الطاف صا حب نے سرد آہ بھر کر کہا ، ’’کیا بچنا تھا؟ سب کچھ پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔ ‘‘یہ بات اپنے ساتھی نوجوان صحافی اورلکھاری محمود الحسن سے شیئر کی تو اس نے برجستہ تبصرہ کیا،’’ یہ ایسے ہی ہے کہ تقسیم ہندسے پہلے کانگریس کے پاس مسلم لیگ یا مسلمان ووٹروں کا دل جیتنے کا وقت 1937کے انتخابات کے بعد کا تھا، جب انہوں نے اپنی تنگ دلی اور تعصب سے شکست خوردہ مسلم لیگ میں جان ڈال دی۔ کانگریس 1946میں جتنی کوشش کرتی، وہ مسلم ووٹروں کا دل نہیں جیت سکتی تھی، وقت گزر چکا تھا۔ پاکستان بننا ہی تھا، اسے تب ریورس نہیں کیا جا سکتا تھا، تب نہرو چاہتا تب بھی پاکستان بننے کو روکا نہیں جا سکتا تھا۔ واقعات کا ایک ایسا بہائو ہوتا ہے جسے بعد میں موڑا نہیں جا سکتا۔ ‘‘ الطاف قریشی صاحب نے اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے ،’’اس کا مطالعہ کرتے ہوئے اس ماحول کی تیرگی کا بھی اندازہ ہوسکتا ہے جس میں تاریخ سے بے خبر فوجی حکمرانوں سے ہمالیہ جیسی غلطیاں سرزد ہوئیں ، جبکہ سیاست دان حالات کی سنگینی کا احساس کرنے کے باوجود اپنی انا کے خول ہی میں بند رہے ۔واقعات سے یہ بھی آشکار ہوا کہ ہمارے خفیہ ادارے جن پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے رہے، وہ کس قدر حقائق سے دور اور فہم وفراست سے تہی دامن تھے۔ ان کے گمراہ کن تجزیے اور غلط معلومات حکومت کی تباہ کن پالیسیوں کی اساس بنیں۔ یہ دلخراش حقیقت بھی انتہائی خوفناک شکل میں ظاہر ہوئی کہ طاقت کا اندھا دھند استعمال معاشرے میں انارکی پھیلاتا، بھائی کو بھائی کا دشمن بناتا اور سلامتی کے راستے بند کر دیتا ہے۔ تاریخ اصلاح کی مہلت دیتی ہے،سبق سکھاتی ہے اور بار بار کی خطائوں پر سخت گرفت بھی کرتی ہے۔‘‘( صفحہ پندرہ۔مشرقی پاکستان،ٹوٹا ہوا تارا) سانحہ مشرقی پاکستان کا سب سے المناک سبق یہی ہے کہ ہم نے اس سے کچھ نہیں سیکھا۔ اگر کچھ پلے پڑا ہوتا تو آج جو ہم کر رہے ہیں ، جس طرح عوامی جذبات اور احساسات کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، کبھی ایسا نہ کیا جاتا۔افسوس کہ ہم نے اپنا ملک ٹوٹنے سے بھی سبق نہ سیکھا۔