پاکستان میں حالیہ عرصے میں کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کی کارروائیاں بڑھی ہیں ،ان کارروائیوں کے انسداد کے لئے سکیورٹی اداروں نے مستعدی سے کام کیا۔جس سے یکدم بگڑتی صورتحال میں بہتری کے آثار نمودار ہو رہے ہیں لیکن اصل بگاڑ وہ نظریاتی و فکری ٹیڑھ پن ہے جو نوجوانوں کو ورغلانے کے لئے بروئے کار ہے ۔ پاکستان کے 16 ممتاز علما کرام نے نے اتوار کو جاری ہونے والے ایک فتوے میں کہا کہ اسلامی ریاست کے ہر شہری کو جہاد کے اعلان کا حق حاصل نہیں، بلکہ یہ صرف سربراہ ریاست کی صوابدید ہے۔14 صفحات پر مشتمل فتوے میں کہا گیا کہ اسلامی ریاست کے سربراہ کی ذمہ داریوں میں اسلامی مبادیات کی حفاظت کرکے لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا۔ اور دشمن کے حملوں سے سرحدوں کی حفاطت شامل ہیں۔اس فتوے کی وجہ وطن عزیز میں بعض تشدد پسند تنظیموں کی جانب سے سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلا کر ریاست کے خلاف مسلح کارروائیوں پر آمادہ کرنے کی کوشش ہے۔فتوے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود نے علما کے نام جاری ایک ویڈیو پیغام میں جہاد کے حوالے سے رائیمانگی تھی۔کالعدم ٹی ٹی پی رہنما مفتی نور ولی محسودکو براہ راست مخاطب کیے بغیر علما نے پشاور کے ایک شہری کے سات سوالوں کے جواب میںحالیہ فتویٰ جاری کیا۔تاہم عوامی حلقوں میں اس کو ٹی ٹی پی کے امیر کے سوالوں پر علما کی مجموعی رائے سمجھا جا رہا ہے۔ ان سوالوں کے جواب میں شیخ الحدیث مولانا قاری احسان الحق (دارالعلوم سرحد پشاور)، مولانا سلمان الحق حقانی (جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)، مولانا رحمت القادری (صوبائی ناظم اعلی تنظیم المدارس)، مفتی مختار اللہ حقانی (دارالفتا، جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)، مولاناطیب قریشی (چیف خطیب خیبرپختونخوا)، مفتی خالد عثمانی (جامعہ عثمانیہ کوہاٹ)، اور مولانا عبدالکریم (علما کونسل خیبرپختونخوا) سمیت 16 علما کرام نے ایک فتوی جاری کرکے یہ واضح کیا کہ ’پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ اور اس کی سلامتی و حفاظت کے لیے دشمن کے ساتھ مقابلے میں فوج و پولیس اہلکار قتل ہو جائیں، وہ شہید ہیں، اور ان کی شہادت میں کوئی شک وشبہ نہیں۔‘ معروف عالم دین مفتی عبدالرحیم کا ایک بیان اسی تناظر میں سامنے آیا ہے۔انہوں نے بجا طور پر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ سقوط بغداد،سقوط دہلی اور سقوط خلافت عثمانیہ کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر سقوط کے وقت تین چیزوں پر حملے ہوئے،یہ تین چیزیں سیاسی استحکام، معاشی استحکام اور دفاعی طاقت تھیں۔ان ہی تین پر ریاست کا مجموعی استحکام اور قوت انحصارکرتی ہے ۔جن اقوام کو ان تین امور میں کمزور کر دیا جائے ان کی بقا مشکل ہو جاتی ہے۔ درپیش صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے ،معاشی حالت دگرگوں ہے ۔سکیورٹی ادارے باقی بچے ہیں جن کے لئے چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں یہ معاملہ سنجیدہ توجہ چاہتا ہے کہ مذہبی حوالے استعمال کر کے پاک فوج کے مقابل لشکروں کو سماج کس نظر سے دیکھتا اور ان کے پروپیگنڈہ سے خود کو کس طرح بچاتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان دہشت گردانہ واقعات میں ملوث رہی ہے،خواتین اور بچے اس کی کارروائیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ٹی ٹی پی کی جانب سے جہاد کے تصور کو غلط صورت میں دکھایا جا رہا ہے۔بلاشبہ جہاد افضل ترین عمل ہے لیکن اس کی شرائط کا تعین کرنا کسی شخص یا گروہ کے سپرد نہیں کیا جا سکتا بلکہ ایسا کرنا ریاست کا کام ہے۔ہر شخص یا قبیلہ اپنا لشکر بنا کر جہاد شروع کردے تو سماج کا امن تباہ ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریاست ایک آئین بناتی ہے،آئین اختیارات کی تقسیم کرتا ہے،شہری اور ادارے اس آئین کی پابندی کرتے ہیں ،اپنا بدلہ خود لینے کی بجائے ریاست سے کہتے ہیں کہ ظالم کو سزا دے ۔مطالبات منوانے کے لئے پر امن راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ ٹی ٹی پی کا تصور جہاد مبہم رہا ہے ،افغان طالبان نے ان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیئے پاکستان سے اپیل کی تھی۔ پاکستان نے مسلمانوں کا خون ناحق بہنے سے روکنے کے لئے خلوص کے ساتھ بات چیت کی۔پاکستان جسے پہلے ہی بھارت اور دوسرے چند ممالک کی جانب سے خطرات لاحق ہیں وہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ لڑائی کو مناسب نہیں سمجھتا لیکن ریاست کو اگر خطرہ ہو تو خطرے کوباقینہیں رکھا جا سکتا،بات چیت کا آغاز مسلم قوم کے مشترکہ نقصان کو پیش نظر رکھ کر ہوا ، کچھ عرصہ فائر بندی رہی پھر ٹی ٹی پی نے یکطرفہ طور پر فائر بندی معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا ۔اس اعلان کے بعد ٹی ٹی پی نے ملک کے مختلف حصوں میں کارروائیاں کی ہیں ۔بلاشبہ ان کارروائیوں میں جن لوگوں کا خون بہا وہ نہتے ، معصوم اور غیر مسلح مسلمان تھے ۔ یہ خون ناحق کس کی گردن پر ہے ؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسی ہزار پاکستانی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں ۔یہ اسی ہزار افراد وہ ہیں جن کا تعلق ہر مسلک، علاقے ،زبان اور ثقافتی اکائی سے ہے ۔گویا پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں نے مشترکہ طور پر اس جنگ میں اپنا لہو پیش کیا ہے ۔اسے لہو کا اجماع بھی کہا جا سکتا ہے جو ان شہدا نے اپنے ملک کی سلامتی کے خلاف سرگرم قوتوں سے لڑتے ہوئے دکھایا ۔بے شک پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے ،سیاسی انتشار اور نا اتفاقی نے عدم استحکام کا شکار بنا رکھا ہے لیکن یہ سچائی بار بار مستحکم رہی ہے کہ ملک میں امن کی بحالی کے لئے ہر شہری اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ٹی ٹی پی نے علما کرام سے رہنمائی چاہی ہے تو اسے جواب مل گیا ہے ، علما کرام سمجھتے ہیں کہ کالعدم تنظیم کی کارروائیوں سے ایک اسلامی ریاست بد امنی کا شکار ہو رہی ہے ، پاکستان کے دشمنوں کے عزائم پورے ہو رہے ہیں اور مسلمان کمزور بنائے جا رہے ہیں۔