یہ بھی تماشہ دیکھ لیا خاص و عام نے رسوا کیا ہے تونے مجھے سب کے سامنے لوگوں کو ہے یہ دکھ کہ نہیں کام کچھ کیا بے کار کر کے رکھ دیا مجھ کو تو کام نے آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے، سیاست اور معاشرت پر بھی بات کریں گے مگر دل چاہتا ہے کہ کچھ تخلیقی صورت حال آپ سے شیئر کروں کہ کچھ فہم و فکر کی ریاضت بھی ہو جائے۔جیسے شبیہ ابر ہو پانی سے منعکس۔میں رو رہا تھا اور تھا وہ میرے سامنے صحرا کے عین بیچ تو سچ مچ سراب تھا میں بڑھ رہا تھا عکس تمنا کو تھامنے۔برسوں کا ایک سلسلہ ناتمام تھا۔کھولے ذرا سے پر جو محبت کی شام نے۔ امجد اسلام امجد نے کہا تھا کہ جتنا بھی ہے سب محبت کا پھیلائو ہے ،لگتا ہے یہ محبت بھی اپنے آپ ہی سے ہے، سب نام و نمود اتنے نہ ہاتھ پائوں چلا نام کے لئے جس کو کبھی ڈبویا ڈبوبا ہے نام نے۔ چلیے اس تمہید کے بعد آتے ہیں ہم لمحہ موجود پر لمحہ موجود بھی تو اپنا وجود برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہے بہار ہو کہ خزاں ہو نہیں ہیں میرے بغیر۔یہ کائنات بھی شاید شہود ڈھونڈتی ہے۔ہر کوئی اپنی بقا کی فکر میں ہے اور ہرکسی کو ختم کرنے میں بھی اس کا اپنا ہی کیا دھرا ہے، وہی کہ مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مردا ۔یہاں سارے ہی یہی رول ادا کرنے کے چکر میں ہیں، مگر قیس تو ہر رنگ میں عریاں نکلا میں کوئی بجھارتیں نہیں ڈال رہا بس استعاراتی زبان میں بات کر رہا ہوں کہ آپ لطف اندوز ہوں کہ ادھر بھی تو وہی حیلے ہیں پروزی۔ لیجیے شہباز سریف نے نوجوانوں کے لئے آسان قرضوں کی سکیم کا اجراکر دیا ہے۔وہی کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا یہ میں نے حکمرانوں کے لئے نہیں بلکہ نوجوانوں کے لئے کہا ہے مگر لگتا ہے ایسے ہے کہ چلیے حکومت کے لئے کہہ دیا ہے 5لاکھ کا قرضہ بلا سود 15لاکھ تک پانچ اور 75لاکھ تک 7فیصد شرح سود اس سے کاروباری من پسند لوگوں کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ ایک زمانے میں ییلو ٹیکسی بھی نوجوانوں کو ملی تھی۔اب تو وہ مرکھپ گئے اور ییلو ٹیکسی بھی چھوڑیے گڑھے مردے کیا اکھیڑنے۔ ہم نے سستی روٹی سکیم کے تحت بھی اربوں روپے تنور میں ڈال دیے ۔یہ سکیم بری نہیں تھی مگر برے لوگوں نے اسے برباد کیا۔بات کسی اور طرف نکل جائے گی ہم سکیم پر ہی رکتے ہیں ایسا کیوں ہے کسی کو یقین نہیں آتا کہ یہ بلا سود قرض مستحق لوگوں کو مل جائے گا۔ پہلے بھی نوجوانوں کے لئے فنڈ قائم کر کے مریم نواز کے سپرد کیا گیا تھا کیا یہ برادریوں کو نوازنے کا سلسلہ بند نہیں ہونا چاہیے۔کہیں یہ سیاسی چال تو نہیں۔ اگر یہ سیاسی سٹنٹ لیں اور شہباز شریف واقعتاً نوجوانوں کی بھلائی چاہتے ہیں تو اس سکیم کو ضرور سراہا جانا چاہیے اس کے لئے کوئی فول پروف طریقہ نکالا جائے کہ مستحق لوگوں کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع ملے۔اس کے لئے شفاف انٹرویو ہوں، سب سے پہلے نوجوانوں کو عمران خاں نے اپنی طرف متوجہ کیا تھا کہ وہ انہیں اچھا مستقبل دے گا، اس کے باوجود کہ ن لیگ نے خان کو کائونٹر کرنے کے لئے طلباء و طالبات میں لیپ ٹاپ اور سولر لیمپس تقسیم کئے۔علاوہ ازیں ان کے وظائف مقرر کئے، لائق طلباء کو باہر کے تعلیمی ٹور بھی لگوائے تب تک تو ایک مسابقت چل رہی تھی مگر نوجوان تمام مراعات کے باوجود عمران کی راہ دیکھ رہے تھے خان صاحب آ بھی گئے اور پھر ان کئی اور بلائوں نے گھیر لیا انہیں وقت ہی نہ ملا کہ نوجوانوں کی طرف متوجہ ہوں۔ اس میں کیا شک ہے کہ نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں، ان میں بلا کا ٹیلنٹ بھی ہے مگر نظام کی خرابی یہ کہ انہیں ان کا حق نہیں ملتا۔سفارش پر پیسے کے زور پر نااہل سرایت کر جاتے ہیں۔ اور تو اور آپ کھیلوں ہی میں دیکھ لیں اور تو اور قومی کھیل ہاکی تباہ ہو کر رہ گیا کبھی ٹیلنٹ ہنٹنگ ہوتی تھی اب تو صرف شکار پھنسایا جاتا ہے۔ کسی جگہ پر بھی ہمیں شفافیت نظر نہیں آتی۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ نظریاتی دور ختم ہو چکا، اب تو اپنا اپنا مفاد ہے اور معیشت مگر یہ بھی تو ایک نظریہ ہے، جسے مادہ پرستی یا خود غرضی کہا جا سکتا ہے۔نوجوانوں کا کوئی والی وارث نہیں۔بے روزگاری آپ کے سامنے ہے، کتنے دلکش نعرے ہوا کرتے تھے کہ ایک کروڑ نوکریاں 50 لاکھ گھر کچھ آشیانہ سکیم کے نقوش اور دانش سکول۔ ن لیگ اپنے پیر جمانے کے حیلے کر رہی ہے مگر جب تک معیشت نہیں سمبھلتی یہ نقوش برآب ہی ثابت ہونگے۔ ن لیگ کی ساری کوشش کے باوجود کہ وہ کسی طرح نوجوانوں کو اپنا گرویدہ کرنا چاہتے ہیں، وہ تمام خرابیوں کے باوجود اب بھی عمران خان کا دم بھرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ خان صاحب چلنے ہی نہیں دیا گیا کہ اس ملک کے والی وارث تب تک کسی کو برداشت کرتے ہیں، جب تک کوئی منافع بخش ہوتا ہے۔مصیبت یہ ہے کہ اس کے علاوہ بھی خوش آمدی حاشیہ بردار اور طفیلی ساتھ آن چمٹتے ہیں نوچ نوچ کر کھانے لگتے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ جب کسی نے کہا کہ کرپشن پر توجہ دینے کی بجائے معیشت پر توجہ دیں حالانکہ کرپٹ لوگوں نے ہی تو معیشت کا بیڑہ غرق کیا۔دوسری غلطی یہ کہ اپنے چوروں سے اغماض بھی تو درست نہیں کہ ’’اپنی بکل دے وچ چور‘‘چلیں اتنی ساری باتوں کے بعد ایک دو مزیدار باتیں بھی ہو جائیں کہ ہم خط اٹھا سکیں شیخ رشید کے منہ سے دلہنوں کا تذکرہ سن کر اچھا بھی لگا اور عجیب بھی۔فرماتے ہیں کہ پنجاب میں بغیر ڈولی کے دلہنیں آ گئیں۔ تفصیل میں میں نہیں گیا، اس سے پہلے پرویز الٰہی نے تو بغیر دلہن کے ڈولی واپس بھیج دی تھی۔دوسری بات امریکی ماہرین کی دلچسپ ہے کہ کوئی معجزہ ہی پاکستان کو قرضوں سے نکال سکتا ہے کہ ان کی کامیابیاں ہی قرضہ ملنے پر ہیں: قرضوں کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن لیکن انہیں تو اس بات کی سمجھ بھی نہیں کہ ان کے خون میں قرض ہی تو دوڑتا پھرتا ہے، یہ سب کچھ ان کا ہوتا ہے اور ان کو لانے والوں کا۔عوام کے نام پر یا ان کے اترے ہوئے چہرے دکھا کر قرض لیا جاتا ہے۔ جیسے اب سیلاب کے نام پر امداد لی گئی ہے، جو قرض ہی کی ایک صورت ہے۔آفتیں بھی انہیں کو راس آتی ہیں ،ہر زحمت ان کے لئے رحمت ثابت ہوتی ہے۔اعظم سواتی نے اچھی بات کہی کہ عسکری طاقت قانون کے تابع ہو تو ملک خوشحال ہو سکتا ہے مگر سواتی صاحب طاقت تو آپ کی بھی قانون نہیں دیکھتی اور کمزور پر چڑھ دوڑتی ہے، آخری مزیدار خبر یہ کہ اب حکومت فواد چودھری کو لیڈر بنانے جا رہی ہے کہ اسے گرفتار کروا دیا ہے: جو تنی تھی ہماری گردن تھی جو کٹا ہے وہ سر ہمارا ہے