ہمیں ایک دوسرے سے سوال پوچھنے کا بہت شوق ہے‘ہم دوستوں کی ’ٹوہ‘میں لگے رہتے ہیں‘ ہم کوئی نہ کوئی ایسا پوائنٹ تلاش کرتے ہیں، جس سے ہم دوستوں کا’توا‘لگا سکیں۔ہم یہ سب کرتے ہوئے اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ہمارے یہ سوالات یا ہماری ’ٹوہ‘لگانے کی حرکت کسی کے لیے کتنی تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔ہم لوگوں سے وہ سوال پوچھتے ہیں جو خدائے لم یزل کے پوچھنے والے ہیں مثلاً آپ نے نماز ادا کی‘آپ تہجد پڑھتے ہیں‘ آپ نے روزے کتنے رکھے‘آپ والدین کی خدمت کرتے ہیں‘آپ صدقہ و خیرات کیوں نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔ہم لوگوں سے وہ سوال کیوں نہیں پوچھتے جو انسانوں کے پوچھنے والے ہیں مثلاً آپ نے کھانا کھایا‘آپ کے گھر کا چولہا جل رہا ہے‘آپ کے بچے بھوکے تو نہیں سوئے‘آپ کے پاس بچوں کی فیس کے پیسے ہیں‘آپ کے گھریلو اخراجات پورے ہو رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہم عجیب کیفیت کا شکار ہیں‘ہمیں ایسے سوالات بہت اچھے لگتے ہیں جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں‘میں اس رویے کو انتہائی غیر اخلاقی سمجھتا ہوں۔میرا خیال ہے ہمیں انسانوں سے انسانوں والے سوالات کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے‘ہمیں دوستوں سے کوئی ایسی بات یا سوال نہیں کرنا چاہیے جس سے سامنے والا شخص تکلیف اور سوچ میں پڑ جائے‘یہی انسانی و اخلاقی رویہ ہے۔ کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں پانچ ایسے سوالات بتائے گئے جو انتہائی غیر اخلاقی تھے‘پوسٹ میں یہی موضوع زیر بحث تھا کہ ہمیں دوسروں سے کیسے سوال کرنے چاہیں‘ہمیں ایک دوسرے کا بھرم رکھنا چاہیے تاکہ ہم شرمندگی سے بچ سکیں۔میں آپ سے بھی چند سوالات شیئر کرتا ہوں‘ایسے سوالات جو ہم دوسروں سے کرتے ہوئے بالکل بھی عار محسوس نہیں کرتے ‘یہ تک نہیںسوچتے کہ سامنے والا شخص کس ذہنی اذیت کا شکار ہو سکتا ہے‘ایک شخص جو پہلے ہی ان سوالوں کے جواب تلاش کر رہا ہے‘ہم دوبارہ اس پرانہیں سوالوں کا ملبہ پھینک دیتے ہیں۔کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ حالات کی کسمپرسی کا شکار انسان جینا چاہتا ہے‘ وہ حالات کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے مگر وہ غیر اخلاقی سوالات اسے وقت سے پہلے ہی مار دیتے ہیں جو دوسروں کی جانب سے مسلسل کیے جا رہے ہوتے ہیں‘میں غیر اخلاقی سوالات کرنے والوں کوانسانوں کاقاتل سمجھتا ہوں۔ اچھے اور مناسب رشتے کی انتظار میں بیٹھی غریب کی بیٹی سے یہ سوال کبھی مت کریں کہ کہیں بات پکی ہوئی یا کہیں سے رشتہ آیا؟یہ ایسا تکلیف دہ سوال ہے جس کے پیچھے غریب والدین کی آہیں اور سسکیاں پڑی ہوتی ہیں‘ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں بیٹھی بیٹی اندر سے ٹوٹ جاتی ہے جب اس سے اس کی سکھیاں یہ سوال پوچھتی ہیں کہ ’کوئی بات بنی؟‘آپ خود سوچیں کیا ہمارا یہ سوال پوچھنا بنتا ہے‘کسی بھی باپ یا بیٹی سے یہ غیر اخلاقی سوال کسی صورت بھی قابل ِقبول نہیں۔ہم بے اولاد جوڑوں سے یہ سوال بھی ضرور کرتے ہیں کہ ’کوئی امید لگی یا کب تک خوش خبری سنا رہے ہو؟‘یہ سوال اس جوڑے کے لیے کتنا تکلیف دہ ہوگا‘کبھی ہم نے سوچنے کی زحمت کی؟ہمیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہم دوسروں سے ہر وہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں جو ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔ہم پیدل چلنے والے یا موٹر سائیکل سوار سے گاڑی خریدنے کا سوال بھی بہت کرتے ہیں‘ گاڑی کب لے رہے ہو؟ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہمارے پاس اچھی سواری ہے تو دنیا کے ہر دوسرے فرد کے پاس بھی یہی نعمت یا سواری ہونی چاہیے ‘یہ سوچے سمجھے بغیر کہ سامنے والے کے گھر میں ایک وقت کا چولہا بھی نہیں جلتا اور ہم اسے گاڑی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ہم کرائے پر رہنے والے ہر دوسرے شخص سے یہ سوال بھی ضرور کرتے ہیں کہ اپنا گھر کب بنا رہے ہویا تم نے کہیں پلاٹ خریدا؟ہم نے کبھی یہ سوچا کہ سامنے والا شخص رینٹ دینے سے بھی مجبور ہے اور ہمیں اس کے اندر ایک نئی خواہش جگا رہے ہیں۔ہم بے روزگار سے یہ سوال بھی ضرور کرتے ہیں کہ کہیں بات بنی یا کوئی اچھی نوکری ملی؟میرا خیال سے یہ سوال بھی انتہائی غیر مناسب اور غیر اخلاقی ہے۔بے روزگار کو نوکری کی تلاش کیوں نہیں ہوگی‘رینٹ پہ رہنے والے کے اندر اپنے گھر کی آرزو لازمی ہوگی‘پیدل چلنے والے موٹر سائیکل یا گاڑی کا سوچتے تو ہوں گے‘بے اولاد جوڑے بچوں کے لیے کتنا ترستے ہوں گے‘جس باپ کی بیٹی ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہے کیا وہ رشتے کی تلاش میں کہیں نہیں نکلا ہوگا؟ ہمیں اپنے اس رویے پر غور کرنا ہوگا‘ہمیں سوال کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ کہیں ہمارے ایسے لاپرواہ سوالات کسی دوسرے کے لیے ڈپریشن اور ذہنی اذیت کا باعث تو نہیں بن رہے۔ہمیں سوال کرنے سے پہلے کم از کم ایک دفعہ ضرور سوچنا چاہیے کہ میری یہ غیر اخلاقی تفتیش کسی دوسرے کا قتل تو نہیں کر رہی ‘ایسے لوگ جو پہلے ہی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں‘کچھ کرنے کی خواہش لیے جہدِ مسلسل میں مصروف ہوتے ہیں‘ان سے سوالات اور گفتگو کرتے ہوئے ہمیں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ہر سوال ہر انسان کے لیے نہیں ہوتا‘ اگر کسی دوست نے آپ کو سوال کا حق دے ہی رکھا ہے تو لازمی نہیں کہ آپ نے اسے ذبح ہی کرنا ہے‘ اس کی تذلیل ہی کرنی ہے اور اگر سامنے والا غصہ کر جائے تو آپ یہ کہہ کر قہقہ لگا دیں کہ میں نے تو یہ سوال’ایویں‘ ہی پوچھا‘میں اس رویے کو دوستی نہیں بلکہ کھلی دشمنی کہتا ہوں۔میںہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ دوستوں سے ایسے سوالات بالکل نہ کیے جائیں جو میرے کرنے والے نہیں بلکہ ان سے صرف وہ سوال کروں جو میرے کرنے والے ہیں اور یہی ایک مثبت رویہ ہے‘اس رویے کا فروغ معاشرے سے ڈپریشن کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔