خبر ہے کہ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کے تین بڑے ہوائی اڈوں بشمول جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی، علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیرپورٹ لاہور اور اسلام آباد انٹر نیشنل ائیر پورٹ کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جائے۔ دوسرے لفظوں میں اب اِن ہوائی اڈوں پر وفاقی حکومت کا کلی کنٹرول برائے نام رہ جائے گا۔ اب یہ تینوں ائیرپورٹ ٹھیکے پر دستیاب ہیں اور مہیا معلومات کے مطابق ا ن ہوائی اڈوں کو قطر کی کمپنیوں کے حوالے کیا جارہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اِس فیصلے کا ’ائیرکرافٹ اْونرز اینڈ آپریشنز ایسوسی ایشن‘ نے خیر مقدم نہیں کیابلکہ حکومت اور قطر ی کمپنیوں کو تنبیہ کی ہے کہ وفاقی حکومت کے اِس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ پاکستان کی سرکاری املاک کو ٹھیکے پر دینا سبھی حکومتوں کی ترجیحات میں رہا ہے۔جو اقتدار پہ آتا ہے یا لایا جاتاہے وہ قومی اداروں کی نجکاری پہ لگ جاتا ہے۔ سبھی حکومتیں اعداد و شمار کی جادوگری کے ذریعے عوام کو اربوں روپے آمدنی کی نوید سناتی ہیں۔ ہر سیاست دان، ہر وزیراعظم، ہر وزیر خزانہ عوام کو اپنے انداز سے خوشخبری سناتا ہے کہ بہت جلد پاکستان کے حالات بدل جائیں گے۔ ہر آنے والی حکومت سابق حکومت کوبدترین معاشی و سیاسی حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ملک کو صحیح سَمت چلانے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔ عوام سوچتی ہے کہ چلو شاید یہ آخری فیصلہ ہوگا، ملک و عوام خوشحالی کی طرف گامزن ہوجائیں گے۔ مگر آج تک ایسا ہو ا نہیں۔ اِس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر آج اْن میں سے کچھ وجوہات پہ بات کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک نے آج تک حکومت ِ پاکستان پر کوئی ایسی شرط عائد نہیں کی جس کے تحت پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں شامل وزرائ،مشیران، بیوروکریٹس یا بڑے بڑے سرکاری اداروں کے سربراہان سمیت کسی کو پابند کیا گیا ہو کہ چونکہ ملک کے معاشی حالات خراب ہیں اس لئے آئندہ کوئی وزیر، مشیر، بیوروکریٹ سرکاری مراعات نہیں لے گا۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں ہمیشہ براہِ راست عوام کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ مثلا وفاقی حکومت کو پابند کیا جاتا ہے کہ آپ نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے، آپ نے پٹرول کی قیمت بڑھانی ہے، آپ نے ہر وہ چیز بڑھانی ہے جو عام عوام کے زیر ِ استعمال ہوتی ہے۔ اِ س کاایک مقصد تو یہ لیا جاسکتاہے کہ چونکہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے چین، بھارت، امریکہ، انڈونیشیاء کے بعد پانچواں بڑا ملک ہے ۔اس لئے بڑی انسانی مارکیٹ ہونے کے سبب یہاں سے زیادہ پیسہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کو قرضہ واپس کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر جب بھی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے قرضہ کی قسط جاری ہوتی ہے تو دبئی میں پراپرٹی کی قیمتیں کیوں بڑھ جاتی ہیں؟ اس بات کا اعتراف سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر ساجد تارڑ نے بھی کیا ہے۔ جب اْن سے پوچھا گیا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے حکومت ِ پاکستان پر یہ شرط کیوں عائد نہیں کرتے کہ وہ سیاستدانوں، وزیروں، مشیروں اور بیوروکریٹس سمیت دیگر آئنی اداروں کے سربراہان کی تنخواہوں، مفت پیٹرول، رہائش گاہوں، دیگر مراعات پر کمی کریں۔ اس کے جواب میں ساجد تارڑ نے جواب دیا کہ یہ حکومت ِ پاکستان کا کام ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے جاری قرض کی قسط کو کیسے استعمال کرتی ہے۔ چلیں ایک طرف مان لیا جائے کہ آئی ایم ایف براہِ راست پاکستانی عوام سے ڈیل نہیں کرتی بلکہ وہ حکومت ِ پاکستان اِس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ وہ قرض سود سمیت واپس کرے گی۔ پھر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر ادارے براہِ راست پاکستانی عوام کے زیر ِ استعمال اشیاء پر کیوں شرائط عائد کرتے ہیں؟ جس کا سادہ سا جواب یوں بھی دیا جاسکتا ہے کہ خود حکومت ِ پاکستان کے وزراء اور مشیران یہ چاہتے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کو یہ مشورے دیتے ہوں کہ چونکہ پاکستانی عوام کے لئے یہ قرض لیا جارہا ہے اس لئے عوام کو بھی براہِ راست شامل کیا جائے۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آج تک آئی ایم ایف سے حاصل کیا گیا قرضہ عوام پر خرچ نہیں ہوا۔ بلکہ آج تک پاکستانی عوام پر آئی ایم ایف کے قرضوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ ہر قسط کے ساتھ عوام کو یہ نوید سنائی جاتی ہے کہ اِ س قسط کو آپ نے سود سمیت واپس کرنا ہے۔ کیونکہ ہر اگلا حکمران پچھلے حکمران کو موردِ الزام ٹھہرا کر خود کو فرشتہ مانند سمجھتا ہے اور عوام دونوں کا منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ا س لئے بڑے پیمانے پر پاکستانی عوام کو براہِ راست آئی ایم ایف سے رابطہ کرناشروع کردینا چاہئے کہ جو قرض آپ حکومت ِ پاکستان کے ذمہ داران کو دے رہے ہیں یہ رقم ہم پر کبھی خرچ نہیں ہوئی۔بلکہ ہمیں ہمیشہ قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے، ہمیں سامنے رکھ کر ہمارے نام پر قرض لیا جاتا ہے لیکن خرچ ہمیشہ امراء کی عیش پرستیوں پر ہوتا ہے۔ عام عوام یہ بات کریں کہ اگر آئی ایم ایف یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے وزراء نے آپ کو یقین دلایا ہے کہ ہمارے ووٹوں سے وہ منتخب ہوکر اور ہمارا مینڈیٹ لے کر وہ آپ سے بات کررہے ہیں تو ہماری طرف سے ایک شرط یہ بھی شامل کی جائے کہ پہلے پہل ہمارے حکمرانوں، وزرائ، مشیران، بیوروکریٹس کو مہیا بے پناہ سہولیات میں خاطر خواہ کمی کی جائے۔ سرکاری گھروں کو بیچا جائے، سرکاری رہائش گاہوں اور کالونیوں کو نجی املاک کی شکل دیتے ہوئے اْنہیں بیچ کر زرِ مبادلہ میں اضافہ کیا جائے۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے پاکستانی عوام کی جانب سے معاہدے میں یہ شرائط بھی شامل کریں کہ آئندہ قسط جاری کرنے سے قبل کرپشن کرنے والے وزیروں، مشیروں اوربیوروکریٹس سے بدعنوانی کی رقم وصول کرکے اْنہیں ملک بدر کیا جائے یا انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ایسا کرنا بھی بظاہر نظر نہیں آرہا۔ پوری سچائی تو یہی ہے کہ ہمارے حکمرانوں، ہمارے سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور دیگر آئنی اداروں کے سربراہان نے وطن ِ عزیز کو اْس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ اِن سبھی حضرات نے اپنی جائیدادیں بیرون ملک بنا رکھی ہیں، اِدھر یہ ملک ڈیفالٹ کرے گا اور اْدھر یہ فلائیٹ پکڑیں گے اور اپنے دوسرے دیس پدھار جائیں گے اور اْس صورت حال میں بھی اس عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب ہر چیز ٹھیکے پر دی جارہی ہے تو تھوڑا سا جاگا جائے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔