توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کون دیکھے گاتہہ آب نظارے سارے سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیے ایک طرف میں نے سہارے سارے اس میں کیا شک ہے کہ دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی مشکل وقت ہے اور ہمیں بھی اسی آفت کا سامنا ہے جس نے بڑی بڑی معیشتوں کو برباد کر کے رکھ دیا ہے اور ہر جگہ نفسا نفسی کی حشر سامانی ہے ایسی آفات میں انسان لاچار و بے بس ہے۔ بس ایک سہارا باقی بچتا ہے کہ جس نے ہمیشہ باقی رہنا ہے یقینا انسان کا اسباب و عوامل پر کچھ بھی اختیار نہیں‘ بس ایک تدبیر و حیلہ ہے باقی سب اسی کے پاس ہے جس نے اسی سعی و کوشش کو باور کرنا ہے۔ بس اسی کی منشا و مشیت ہے کہ وہ پکڑتا بھی اس کو ہے جس کو کچھ باور کروانا ہو وگرنہ وہ بے نیاز ہے کسی کو کھلا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ اسے اب کیسے منایا جائے۔ اس کی ذات کا تعارف یہی بتاتا ہے کہ وہ رجوع کرنے پر فوراً مان جاتا ہے پھر اب تو برکتوں والا مہینہ آغاز ہو چکا۔ اس تک رسائی زیادہ آسان ہے: اس کی دہلیز پر جبیں رکھ دی میں نے خود کو فلک مقام کیا اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے ہمیں اپنی وہ ذمہ داریاں بھی نبھانی ہیں جو ہمارے ذمہ ہیں۔ ہم بھی تو سیدھے سے بات نہیں مانتے کہ عادات کہاں بدلتی ہیں۔ اب فوج کو کہنا پڑا ہے اور عوام کو مخاطب کر کے سمجھانا پڑا کہ آئندہ 15روز بہت اہم ہیں گھروں میں رہ کر عبادت کریں۔ یہ مشورہ یا حکم عین اسلامی ہے کہ وبا کے دنوں میں تدبیر اختیار کرنا اپنے اور دوسروں کی جان بچانے کے مترادف ہے۔ یہ بھی ایک بڑے عالم دین نے کہا ہے کہ گھر گھر مسجدیں بنا دو گھر میں جماعت کروائو اور بچوں کو پیچھے کھڑا کرو۔ واقعتاً ایک روح پرور منظر پیدا ہو جاتا ہے وہ جگہ بابرکت ہو جاتی ہے کہ جہاں سب گھر والے سجدہ ریز ہوں‘ پھر دعائیں مانگیں کہ اللہ بلا ٹال دے۔ مسجدوں میں بھی نشان لگا کر چھ چھ فٹ کے فاصلے پر نمازی کھڑے ہوں کہ جسمانی فاصلہ رہے۔ پچاس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں بڑے بڑے جید لوگ بھی آ گئے ہیں۔جو حکومت سے کئے گئے عہد کے مطابق گھروں میں نماز و تراویح ادا کریں گے۔ ماہ صیام کی اپنی ایک مہک اور تطہیر ہوتی ہے۔ اس میں ویسے ہی نیکی کرنے کو دل چاہتا ہے۔ کچھ لوگ ایسی پوسٹیں بھی لگا رہے ہیں کہ پہلے تو شیطان ہوتا تھا اب ہم بھی گھروں میں قید ہیں۔ ان سے عرض ہے کہ ہم تو مصلحتاً اور مرضی سے گھر پر ہیں اور شیطان ہمیں عبادت سے نہیں روک سکتا۔ عبادت کے ساتھ ساتھ ہمیں خیرات ‘ زکوٰۃ اور صدقات کی طرف بھی توجہ دینی ہے۔ اللہ کی راہ میں خیرات کرنا بھی اس کی توفیق سے ہے۔ وگرنہ میں ابھی ایک پروگرام سن رہا تھا کہ اس مشکل وقت میں کہ جب سب کاروبار بند پڑے ہیں اور لاک ڈائون کی وجہ سے مزدور اور غریب بھوک سے مر رہے ہیں بڑے بڑے ٹائی کون غائب ہیں۔ ایسے درجنوں لوگ ہیں جو اربوں روپے کی مالیت کے اثاثے رکھتے ہیں۔ کچھ جن میں حکمران بھی رہ چکے ہیں اربوں ڈالر سے زیادہ کی دولت کے مالک ہیں۔ ان میں سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس کٹھن وقت میں اپنی دولت کو ہوا لگوائیں۔ چلیے اب تھوڑی سی بات مولانا طارق جمیل کے حوالے سے ہو جائے کہ انہوں نے اپنے کہے پر میڈیا سے معافی مانگ کر بڑے پن کا ثبوت دیا۔ حالانکہ ان کے مخاطب اپنے آپ کو بھی اچھی جانتے ہیں۔ مولانا نے محاورتاً ایک بات کہی جس کا اطلاق کچھ نے اپنے اوپر کر لیا۔میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا مگر یہ تو میرا حق ہے کہ میں اپنی پسندیدگی کا اظہار برملا کروں کہ مولانا طارق جمیل کا اسلوب تبلیغ غلط نہیں بلکہ متاثر کن ہے۔ اس حوالے سے میں حضرت شیر محمد کی مثال پیش کروں گا کہ جب انہوں نے اقبال کی یہ بات سنی کہ کیا ان کو گناہ سے نفرت ہے یا گناہگار سے‘ تو انہوں نے اقبال کو سینے سے لگا لیا۔ وگرنہ وہ بغیر داڑھی کسی سے نہیں ملتے تھے۔ آپ کسی کی نیت پر شک کرنیوالے کون ہوتے ہیں۔ اللہ نے مولانا طارق جمیل کی زبان میں تاثیر رکھی ہے ان کے رویے میں محبت رکھی ہے اور ان کی ذات کو پذیرائی بخشی ہے۔ میں ایک چھوٹا سا واقعہ آپ کے ساتھ شیئر کروں گا۔ مولانا طارق جمیل میرے سب سے چھوٹے بھائی احسان اللہ شاہ سے محبت کرتے ہیں۔ چھ سال قبل میری والدہ کا انتقال ہوا تو مولانا طارق جمیل دوسرے تیسرے روز چشتیاں ہمارے گھر آئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں لوگوں کا ہجوم ہونا شروع ہو گیا۔ ضلع کی پولیس آ گئی کہ آپ لوگوں نے انہیں اطلاع کیوں نہیں کی۔ اطلاع کیا کرتے کہ اہل خانہ کو کون سا غیب کا علم تھا۔ آپ یقین کیجئے کہ لوگوں کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ آخر رات کو سٹیڈیم میں ان کی تقریر رکھی گئی جہاں ہزاروں کا مجمع تھا۔ اب دیکھیے لوگوں کے دلوں میں کسی کی محبت ڈالنے والا اللہ ہے۔ میں سنی سنائی بات پر یقین نہیں کرتا۔ان کی پذیرائی نظر آتی ہے۔ میں نے پروفیسر رشید احمد انگوی جیسے سکالر سے ان کی ایسی تعریف سنی تو حیرت زدہ رہ گیا جبکہ وہ جماعت اسلامی سے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مولانا طارق جمیل امت کو جوڑنے کی بات کرتے ہیں۔ انہیں پسند کرنے والے ہر فرقے کے لوگ ہیں کیونکہ وہ اختلافی مسئلہ نہیں کرتے۔ کچھ لوگ جو طنزاً کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے دور میں وہ ان کے لئے دعا کرتے تھے تو بھائی اس میں کون سی بری بات ہے۔ سب ہدایت کے لئے ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا مولانا نے کسی سے کوئی مفاد اٹھایا۔وہ تو خود امیر آدمی ہیں اور خرچ کر کے خوش ہوتے ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی سے کسی عہدے یا منصب کا تقاضا نہیں کیا۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کیا۔ آپ عمران خاں کا غصہ مولانا پر نہ نکالیں۔ ان کا حالیہ رویہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ صلح جو ہیں‘ کسی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بناتے ہیں وہ مولانا طاہر القادری کے پاس بھی مہمان چلے گئے۔ وہ قوم کو فرقہ واریت سے نکالنا چاہتے ہیں کہ : ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر