سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں98 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔تفصیلات کے مطابق جولائی تا نومبر بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 39 کروڑ ڈالررہا اور نجی شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری 40 فیصد کم ہوکر 53 کروڑ ڈالر رہی۔اسٹیٹ بینک کیمطابق براہ راست سرمایہ کاری 17 فیصد کم ہوکر 71 کروڑ 71 لاکھ ڈالر رہی ،جب کہ 5 ماہ میں اسٹاک مارکیٹ سے بیرونی سرمایہ کاری 18کروڑ 55لاکھ ڈالرکم ہوئی۔ پاکستان ایک ایٹمی پاور کا حامل ملک ہے ،مگر اندرونی خلفشار نے اسے اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ وہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔کبھی آئی ایم ایف کے سامنے تجوری لیکر کھڑا ہوتا ہے تو کبھی سعودی عرب اور چین سے التجا کر رہا ہوتا ہے ۔اب اس کے ساتھ عرب امارات کے ایک ملک کا اضافہ بھی ہو چکا ہے ۔اس کی وجہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے ،جب کسی ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کا سلسلہ ختم ہو جائے تو وہاں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والا معاملہ ہوتا ہے ۔اس وقت ملک میں ڈالر بے لگام ہو چکا ہے۔جو 308روپے کے قریب پہنچ گیا ہے اگر ملک میں ایسا ہی عدم استحکام رہا تو پھر یہ ڈالر مزید چھلانگیں لگائے گااورعام انتخابات کے قریب اس کے 4سوروپے کا ہندسہ عبور کرنے کے خطرات منڈلا رہے ہیں ۔ڈالر کی قیمت میں اضافہ معیشت کی کمر توڑدیتا ہے۔ گزشتہ برس حکومت نے معاشی ترقی کا ہدف 5فیصد رکھا تھا مگر ترقی محض 0.8فیصد رہی ہے ۔زرعی شعبے کی شرح نمو کا ہدف 3.9فیصد تھا لیکن سیلاب سے زراعت کو 297ارب روپے کا نقصان ہوا ،کپاس کی فصل کو سیلاب سے 209ارب روپے کانقصان ہوا،اسی طرح چاول کی فصل کو 50ارب روپے کا نقصان ہوا ہے ۔یہ تو قدرتی آفت کے باعث نقصان ہوا مگر حکمرانوں کی نااہلیوں کی بنا پر جو نقصان ہو اہے، وہ الگ ہے ۔اگر صنعت کی بات کی جائے تو صنعتی شرح نمو کا ہدف 7.1فیصد رکھا گیا ،لیکن شرح منفی8.11فیصدتک گر گئی ۔گاڑیوں کی صنعت شرح نمو42 فیصد گر گئی ہے ۔ہمارا ملک کبھی بھی ایسا نہ تھا ،یہاں کے سیاسی حالات جیسے بھی رہے مگر ملکی معیشت اس قدر تنزلی کا شکار نہیں ہوئی ۔ پاکستان ان دنوں اپنے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ معاشی بحران ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی شدید قلت اور عالمی اداروں کی جانب سے امداد اصلاحات کے ساتھ مشروط کرنے سے پیدا ہوا ہے، کیونکہ پاکستان کی معیشت کا انحصار درآمدات پر ہے اور پاکستان کو ایک بڑے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔اس وقت پاکستان کو نہ صرف عالمی مالیاتی ادارے بلکہ دوست ممالک بھی معاشی اصلاحات اور ٹیکس نیٹ بڑھائے بغیر امداد دینے کو تیار نہیں۔چند روز قبل چین کے وزیر خارجہ نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان سیاسی استحکام پید ا کرے ۔اسی طرح دبئی نے بھی ملک میں استحکام پید اکرنے کا کہا،اس کے بعد کورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں باقی باتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں استحکام پیدا کرنے پر زور دیا گیا ۔اگر پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑانی ہے اور ملک کو ڈالر کمانے کے قابل بنانا ہے تو مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔ اگر چھ سے سات ملکوں اور چند صنعتوں پر توجہ دی جائے تو ہر ملک سے کئی ارب ڈالر سالانہ کی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ اس وقت سعودیہ کا پبلک سرمایہ کاری فنڈ دنیا کا تیسرا بڑا فنڈ ہے۔ وہ پوری دنیا میں پیسہ لگا رہا ہے۔ سعودی ولی عہد نے اپنے تمام سرکاری اداروں اور نجی شعبے کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہدایت کی ہے۔ سعودی سرمایہ کاری کی وزارت نے ساڑھے پانچ ماہ میں 18 اجلاس کیے اور وہ آرمکو کی ریفائنری لگانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو زرعی شعبے اور فوڈ سیکیورٹی میں اپنا شراکت دار بنانے کے خواہش مند ہیں۔ سعودی عرب 8 شعبہ جات میں تیار منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، مگر حکومت تبدیل ہوگئی اور بات وہیں کی وہیں رہ گئی، کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ پاکستانی سفیر جو بھی سرمایہ کاری کی فائل بھجواتا ہے ،وہ پاکستان سے واپس سعودی عرب جاتی ہی نہیں۔ اور سکریٹریٹ کی گرد میں کہیں دفن ہوجاتی ہے۔ چین و بھارت کے علاوہ دیگر چھوٹے ممالک سعودی عرب میں تیار منصوبے لاتے ہیں اور سرمایہ کاری کی منظوری مل جاتی ہے۔ سعودی عرب پاکستان کو اپنی فوڈ سیکیورٹی کا شراکت دار بنانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب ایک خصوصی زرعی زون قائم کرنا چاہتا ہے، جس کیلیے بلوچستان میں زمین کی بھی نشاندہی کردی ہے۔ مگر اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔کیونکہ ملک میں سیاسی استحکام ہی نہیں ہے ۔جب کسی ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا تب تک وہاں کی بیوروکریسی کام نہیں کرتی ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جس کی وجہ سے ہر طرف بدامنی پھیلی نظر آرہی ہے۔ حکومتی اقتصادی پالیسیاں بھی مایوس کن نظر آرہی ہیں، ایسے میں بیرونی سرمایہ کاری کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے؟ یہ صورتحال ہمارے اقتصادی ماہرین اور حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کا جو انکشاف کیا گیا ہے، وہ انتہائی مایوس کن ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کی بڑی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔لہذا اسے ختم کرنے کی سعی کی جانی چاہیے ۔
بیرونی سرمایہ کاری میں کمی، ذمہ دار کون؟
جمعه 26 مئی 2023ء
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں98 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔تفصیلات کے مطابق جولائی تا نومبر بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 39 کروڑ ڈالررہا اور نجی شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری 40 فیصد کم ہوکر 53 کروڑ ڈالر رہی۔اسٹیٹ بینک کیمطابق براہ راست سرمایہ کاری 17 فیصد کم ہوکر 71 کروڑ 71 لاکھ ڈالر رہی ،جب کہ 5 ماہ میں اسٹاک مارکیٹ سے بیرونی سرمایہ کاری 18کروڑ 55لاکھ ڈالرکم ہوئی۔ پاکستان ایک ایٹمی پاور کا حامل ملک ہے ،مگر اندرونی خلفشار نے اسے اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ وہ کبھی اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔کبھی آئی ایم ایف کے سامنے تجوری لیکر کھڑا ہوتا ہے تو کبھی سعودی عرب اور چین سے التجا کر رہا ہوتا ہے ۔اب اس کے ساتھ عرب امارات کے ایک ملک کا اضافہ بھی ہو چکا ہے ۔اس کی وجہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے ،جب کسی ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کا سلسلہ ختم ہو جائے تو وہاں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والا معاملہ ہوتا ہے ۔اس وقت ملک میں ڈالر بے لگام ہو چکا ہے۔جو 308روپے کے قریب پہنچ گیا ہے اگر ملک میں ایسا ہی عدم استحکام رہا تو پھر یہ ڈالر مزید چھلانگیں لگائے گااورعام انتخابات کے قریب اس کے 4سوروپے کا ہندسہ عبور کرنے کے خطرات منڈلا رہے ہیں ۔ڈالر کی قیمت میں اضافہ معیشت کی کمر توڑدیتا ہے۔ گزشتہ برس حکومت نے معاشی ترقی کا ہدف 5فیصد رکھا تھا مگر ترقی محض 0.8فیصد رہی ہے ۔زرعی شعبے کی شرح نمو کا ہدف 3.9فیصد تھا لیکن سیلاب سے زراعت کو 297ارب روپے کا نقصان ہوا ،کپاس کی فصل کو سیلاب سے 209ارب روپے کانقصان ہوا،اسی طرح چاول کی فصل کو 50ارب روپے کا نقصان ہوا ہے ۔یہ تو قدرتی آفت کے باعث نقصان ہوا مگر حکمرانوں کی نااہلیوں کی بنا پر جو نقصان ہو اہے، وہ الگ ہے ۔اگر صنعت کی بات کی جائے تو صنعتی شرح نمو کا ہدف 7.1فیصد رکھا گیا ،لیکن شرح منفی8.11فیصدتک گر گئی ۔گاڑیوں کی صنعت شرح نمو42 فیصد گر گئی ہے ۔ہمارا ملک کبھی بھی ایسا نہ تھا ،یہاں کے سیاسی حالات جیسے بھی رہے مگر ملکی معیشت اس قدر تنزلی کا شکار نہیں ہوئی ۔ پاکستان ان دنوں اپنے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ معاشی بحران ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی شدید قلت اور عالمی اداروں کی جانب سے امداد اصلاحات کے ساتھ مشروط کرنے سے پیدا ہوا ہے، کیونکہ پاکستان کی معیشت کا انحصار درآمدات پر ہے اور پاکستان کو ایک بڑے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔اس وقت پاکستان کو نہ صرف عالمی مالیاتی ادارے بلکہ دوست ممالک بھی معاشی اصلاحات اور ٹیکس نیٹ بڑھائے بغیر امداد دینے کو تیار نہیں۔چند روز قبل چین کے وزیر خارجہ نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان سیاسی استحکام پید ا کرے ۔اسی طرح دبئی نے بھی ملک میں استحکام پید اکرنے کا کہا،اس کے بعد کورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں باقی باتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں استحکام پیدا کرنے پر زور دیا گیا ۔اگر پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑانی ہے اور ملک کو ڈالر کمانے کے قابل بنانا ہے تو مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔ اگر چھ سے سات ملکوں اور چند صنعتوں پر توجہ دی جائے تو ہر ملک سے کئی ارب ڈالر سالانہ کی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ اس وقت سعودیہ کا پبلک سرمایہ کاری فنڈ دنیا کا تیسرا بڑا فنڈ ہے۔ وہ پوری دنیا میں پیسہ لگا رہا ہے۔ سعودی ولی عہد نے اپنے تمام سرکاری اداروں اور نجی شعبے کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہدایت کی ہے۔ سعودی سرمایہ کاری کی وزارت نے ساڑھے پانچ ماہ میں 18 اجلاس کیے اور وہ آرمکو کی ریفائنری لگانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو زرعی شعبے اور فوڈ سیکیورٹی میں اپنا شراکت دار بنانے کے خواہش مند ہیں۔ سعودی عرب 8 شعبہ جات میں تیار منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، مگر حکومت تبدیل ہوگئی اور بات وہیں کی وہیں رہ گئی، کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ پاکستانی سفیر جو بھی سرمایہ کاری کی فائل بھجواتا ہے ،وہ پاکستان سے واپس سعودی عرب جاتی ہی نہیں۔ اور سکریٹریٹ کی گرد میں کہیں دفن ہوجاتی ہے۔ چین و بھارت کے علاوہ دیگر چھوٹے ممالک سعودی عرب میں تیار منصوبے لاتے ہیں اور سرمایہ کاری کی منظوری مل جاتی ہے۔ سعودی عرب پاکستان کو اپنی فوڈ سیکیورٹی کا شراکت دار بنانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب ایک خصوصی زرعی زون قائم کرنا چاہتا ہے، جس کیلیے بلوچستان میں زمین کی بھی نشاندہی کردی ہے۔ مگر اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔کیونکہ ملک میں سیاسی استحکام ہی نہیں ہے ۔جب کسی ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا تب تک وہاں کی بیوروکریسی کام نہیں کرتی ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جس کی وجہ سے ہر طرف بدامنی پھیلی نظر آرہی ہے۔ حکومتی اقتصادی پالیسیاں بھی مایوس کن نظر آرہی ہیں، ایسے میں بیرونی سرمایہ کاری کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے؟ یہ صورتحال ہمارے اقتصادی ماہرین اور حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کا جو انکشاف کیا گیا ہے، وہ انتہائی مایوس کن ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کی بڑی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔لہذا اسے ختم کرنے کی سعی کی جانی چاہیے ۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں جمعه 26 مئی 2023ء کو شایع کیا گیا

آج کا اخبار
-
بدھ 19 اپریل 2023ء
-
بدھ 19 اپریل 2023ء
-
بدھ 19 اپریل 2023ء
-
بدھ 19 اپریل 2023ء
-
بدھ 19 اپریل 2023ء
اہم خبریں