چلیں یہ سب تو ہو گیا ، اب بتائیے ملک کیسے چلانا ہے۔تحریک انصاف کو انجام تک پہنچا دیا گیا ،آگے کیا پلان ہے؟ چلیے آپ کے کہنے پر عمران خان کو لوگ بھول جائیں گے ، آپ کے کہنے پر ان کی سیاسی قبر پر پھول بھی چڑھائیں گے ، بھنگڑا بھی ڈال دیں گے مگر اگلے دن انہیں آٹا خریدنا ہے،بچوں کی فیس دینی ہے ، بیمار ماں کی دوا ئی لانی ہے،گھر کے لیے راشن ڈالنا ہے، لوگ تو مہنگائی کا سوال کریں گے،کاروبار چلانے کا راستہ پوچھیں گے ،ان سب کے لیے جواب کیا ہے آپ کے پاس؟ بجٹ آنے کو ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک حکومت کے تخمینہ جات کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔نہ توموجودہ مالی سال کے حاصل ہونے والے اہداف کا صحیح تخمینہ لگایا جا سکا ہے نہ ہی آئندہ مالی سال کے لیے اہداف کا تعین ہو پا رہا ہے۔نیشنل اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس بار بار ملتوی ہوتا رہا ہے۔ نیشنل اکنامک کونسل کا اجلاس جون کے پہلے ہفتے تک چلا گیا ہے۔ اسحاق ڈار مشکل میں ہیں کہ اپنی کارکردگی کا کیا حساب دیں۔ حکومت شش و پنج میں پڑی ہے کہ زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبے میں اپنی کارکردگی کے کیا اعدادو شمار جاری کرے اور ان کی روشنی میں اگلے سال کے کیا اہداف رکھے۔ اسحاق ڈار پر ماضی میں یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ اعداد و شمارمیں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ہیرا پھیری کرنے والے شخص کے لیے یہ مشکل بھی ہوتی ہے کہ پھر اس پر چاروں طرف سے سوالوں کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہے،جواب نہ بھی دینا ہو تو خفت تو ہوتی ہی ہے۔ماضی میں ایسا ہو چکا ہے کہ اسحق ڈار نے گروتھ ریٹ 5.2 ہونے کا دعویٰ کیا تو آزاد ماہرین معیشت نے کہا حقیقت میں یہ گروتھ چار فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ حکومت کی دوسری مشکل آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا بھی ہے۔ اب تو ایسے لگتا ہے جیسے حکومت بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف کی ڈیل چاہتی ہی نہیں ہے ۔ اگر آئی ایم ایف کی ڈیل پہلے ہو گئی تو پھر اس کے مطابق بجٹ پیش کرنا ہو گا ، اسی کے مطابق نئے ٹیکسز لگانا ہوں گے۔ جو الیکشن ائیر میں کسی کو بھی سوٹ نہیں کرتا۔یوں بھی حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرنا درد سربن چکا ہے۔ بہت سے شرائط پوری کرنے کے باوجود مشکلات باقی ہیں۔ مثلا اب آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان چین کے 2.5 ارب ڈالر قرضے کی ری شیڈولنگ کرائے پھر ان کے پاس پیسے مانگنے جائے۔ آئی ایم ایف کو خطرہ ہے کہیں ایسا نہ ہو پاکستان اس سے1.1 ارب ڈالر لے کر چین کے قرضے کی ادائیگی کر دے ۔ ایسا کرنے سے قرضہ لینے کا مقصد ختم ہو جائے گا۔ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آئی ایم ایف کا ایک بڑا موضوع ہیں۔ پاکستان نے اس ضمن میں سبسڈی کا ایک کمزور سا منصوبہ بنا کے آئی ایم ایف کو دیا تھا جسے اس نے مسترد کر دیا۔منصوبہ یہ تھا کہ ہزار سی سی سے زیادہ والی گاڑیوں کو پیٹرول مہنگا بیچ کرحاصل ہونے والا فائدہ ہزار سی سی سے نیچے والی گاڑیوں کی سبسڈی کی صورت میں دے دیا جائے گا۔اس منصوبے میں درجنوں کمزوریاں تھیں، بے شمار سوال تھے جن کے جواب خود حکومت کے پاس نہیں تھے۔لہذا آئی ایم ایف نے اسے مسترد کر دیا اور یہ منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ۔ لہذا حکومت سے سوال ہے کہ چلیے آپ نے تحریک انصاف کا اپنی منشاء کے مطابق خاتمہ کر لیا، عمران خان کو دیوار سے لگا دیا، ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا، میڈیا کے نمائندوں کو بھی سبق سکھا دیا اب بتائیے آئی ایم ایف سے ڈیل کا کیا کرنا ہے؟ اسحاق ڈار کو ملک میں واپس آئے اب آٹھ مہینے ہو گئے ہیں ۔ آتے ہی انہوں نے ڈالر کو قابو کرنے کے لیے ایل سیز بند کر دیں ، امپورٹ بل کم کرنے کے لیے کئی قدغنیں لگائیں،اس کے نتیجے میں انڈسٹری کا پہیہ جام ہو گیا۔ڈالر پھر بھی قابو میں نہ آیا،اب اوپن مارکیٹ میں تین سو سے زائد میں مل رہا ہے۔اب اسحق ڈار سے پوچھنے کا سوال یہ ہے کہ چلیے اب آپ تحریک انصاف سے نمٹ چکے بتائیے ڈالر سے کیسے نمٹیں گے، بتائیے آپ کا منصوبہ کیا ہے؟ کوئی ہے بھی یا نہیں؟ گرمیاں آچکی ہیں، اگلے مہینے کا بل عوام کے ہوش اڑا دے گا اور اس پہ لوڈشیڈنگ کا عذاب۔خدشہ ہے کہ کئی لوگوں کا بجلی اور گیس کا بل ان کی ماہانہ آمدن سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔اب بتائیے 18 ہزار ماہانہ کمانے والے کو اگر 10 ہزار کا بل بھی آئے گا تو وہ باقی کا گھر کیسے چلائے گا۔ ایسے میں حکومت کو اکتوبر میں انتخابات میں اترنا ہے، عوام کو ریلیف دینے کا حکومت کے پاس کوئی منصوبہ ہے تو کیا ہے؟ بظاہر تو اس مسئلے کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔ پچھلی حکومت پر خراب معیشت کا ملبہ تب تک ہی ڈالا جا سکتا ہے جب تک آپ خود حکومت میں نہ آئے ہوں۔جب کوئی جماعت حکومت میں آ کر نظام سنبھال لیتی ہے تو پھر اس کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی جواز عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔ اس وقت موجودہ مہنگائی نے اچھے اچھوں کے کس بل نکال دیے ہیں۔ایک لاکھ روپیہ ماہانہ سے زیادہ کمانے والا شخص بھی مہنگائی کی موجودہ حالت سے سخت پریشان ہے۔ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو ہو سکتا ہے عمران خان کی موجودہ حالات سے کوئی سروکار نہ ہو لیکن انہیں مطمئن کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی تو منصوبہ ہونا چاہیے۔ حکومت سے سوال یہی ہے کہ آپ نے تحریک انصاف کو ٹھکانے لگا لیا،اسے ٹھکانے لگانے کے بعد کی تمام رسمیں بھی دھوم دھام سے ادا ہو گئیں ،چراغاں بھی ہوا اور جشن بھی، روز نئی وکٹ گرنے کی خوشیاں بھی منائی جا رہی ہیں ، چلیں یہ سب ہو گیا اب بتائیے آگے کیا کرنا ہے۔ ٭٭٭٭٭