رجب طیب اردوان کا شکریہ۔جمعتہ المبارک کو اس نے پورے عالم اسلام کے لئے یوم عید بنا دیا‘ مسجد آیا صوفیہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر صرف ترکی کے کروڑوں مسلمان شاداں نہ تھے‘ مشرق و مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کی خوشی بھی دیدنی تھی‘ سیکولرزم کے لبادے میں کمال اتاترک اور اس کے مذہب دشمن ساتھی عصمت انونونے مسجد آیا صوفیہ کو عجائب گھر میں تبدیل کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کے قلب و روح پر جو گہرا زخم لگایا تھا‘ رجب طیب اردوان نے اس پر مرہم رکھ دیا‘ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد روکنے کے لئے ترک صدر کو اندرونی اور بیرونی دبائو کا سامنا رہا‘ امریکہ و یورپ کے میڈیا پر ماتم برپا تھا کہ اتاترک کی میراث ترکی کا سیکولرازم خطرے میں ہے اور سلطان محمد فاتح کی روح کو خوش کرنے کے لئے گرجاگھر پھر مسجد میں تبدیل ہو رہا ہے۔ برطانیہ ‘ فرانس اور دنیا کے مختلف ممالک میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحیوں نے اپنے گرجاگھر مسلمانوں کو بیچے اور انہیں مسجد بنانے کی اجازت دی‘ مغربی میڈیا نے کبھی برا منایا نہ کسی لبرل سیکولر نے سینہ کوبی کی مگر آیا صوفیہ میں اللہ اکبر کی صدا گونجی تو صف ماتم بچھ گئی‘ رجب طیب اردوان کی مذمت کا آغاز ہو گیا۔ ترکی صدیوں سے مسلم ریاست ہے اور تا قیامت(انشاء اللہ) اپنا اسلامی تشخص قائم رکھے گی‘ کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ ختم کی‘ عربوں نے لارنس آف عریبیہ کی سازش کا حصہ بن کر عظیم سلطنت کو حصوں بخروں میں تقسیم کیا اور اس نااتفاقی ‘ انتشار اور نسلی و لسانی تفرقوں کے سبب اتحاد اُمت پارہ پارہ ہوا تو اقبالؒ تلملا اٹھے ؎ چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی عبا سادگی مسلم کی دیکھ‘ اوروں کی عیّاری بھی دیکھ خلافت عثمانیہ ‘ عصری تقاضوں سے بے خبری اور اندرونی سازشوں سے زوال آشنا ہوئی‘ شاہی محل سازشوں کا گڑھ تھا‘ اُمرا عیش و عشرت میں غرق اور سلطان اُمرا کے ہاتھوں یرغمال‘ جن جرائم پیشہ یہودیوں کو مختلف ریاستوں نے عیاری اور مکاری سے تنگ آ کر جلا وطن کیا انہیں عثمانی سلطانوں نے پناہ دی اور یہ احسان فراموش ریاست کے خلاف سازشوں میں سرفہرست تھے مگر برطانیہ کی طرح خلافت کو رسمی اور نمائشی حیثیت میں برقرار رکھ کر جدید ریاستی نظام وضع کیا جا سکتا تھا کہ مسلمانوں کے اتحاد کی یہ علامت برقرار رہتی مگر کمال اتاترک اور ان کے ساتھیوں نے نہ ناصرف خلافت کی ہر علامت کو برباد کیا بلکہ عربی زبان‘ عربی رسم الخط حتیٰ کہ قرآن مجید کی عربی میں تلاوت ‘ اذان‘ حجاب وغیرہ پر پابندی لگا دی اور ترکی میں سیکولرازم کا ایک ایسا منفرد اسلام دشمن ماڈل بنا کرمتعارف کرایا جس کی مثال برطانیہ و فرانس میں ملتی ہے نہ امریکہ و آسٹریلیا میں۔ کئی عشروں تک پاکستان سمیت مختلف مسلم ممالک میں ترکی کے سیکولر ماڈل کو ہمارے مذہب بیزار عناصر بطور مثال پیش کرتے رہے‘ پاکستان میں سکندر مرزا سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک مختلف حکمرانوں نے حیلوں بہانوں سے مذہب کو طاقت کے ایوانوں سے بے دخل کرنے کے لئے ترکی کے کمال ازم کا ڈنکا بجایا مگر ہمیشہ ناکامی ہوئی‘ کہ پاکستان کے خمیر اور عوام کے ضمیر میں اسلام رچا بسا ہے اور گناہ گار سے گناہ گار مسلمان بھی ریاست مدینہ کے احیا کا خواہش مند ہے۔ ترکی نے بالآخر اس مذہب دشمن سیکولر ازم سے نجات پالی‘ آیا صوفیہ میں اللہ اکبر کی صدا گونجی تو رجب طیب اردوان نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگلی منزل مسجد اقصیٰ کی آزادی ہے۔ یہ بات اردوان کو زیبا ہے کہ جب عرب حکمرانوں نے عرب نیشنلزم کو ذریعہ نجات سمجھ کر کبھی ایران دشمنی اور کبھی ترکی کی عداوت میں اسرائیل سے دوستی کر لی‘ ترک حکمران نے سفارتی نزاکتوںاور امریکی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں کلمہ خیر کہا‘ غزہ کے محصور مسلمانوں کی امداد کی‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مسلم دشمنی کا پردہ چاک کیا اور بھارت سے تجارتی تعلقات کی پروا کئے بغیر محصور کشمیریوں کا ساتھ دیا۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ حرمین شریفین کے خدام اپنی سرزمین پر قمار بازی‘شراب خانوں اور بتکدوں کی تعمیر پر آمادہ ہیں جبکہ ترکی میں مساجد کے تالے کھل رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کا عہد کیا جا رہا ہے‘ یہی ایک مسلمان حکمران کا فرض اور اسلامی حمیت کا تقاضہ ہے۔ ترکی صدیوں تک اسلامی تہذیب و ثقافت کا گہوارہ رہا‘ برصغیر اور جزیرہ نما عرب پر ترک تہذیب و ثقافت کے اثرات گہرے ہیں‘ ترک ڈرامہ ارطغرل ان دنوں پاکستان میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہا ہے‘ رجب طیب اردوان نے اس ڈرامے کی تیاری میں خصوصی دلچسپی لی اور ڈرامہ دیکھ کر طیب اردوان کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے ۔نشاۃ ثانیہ کی جو تڑپ ہر کلمہ گو کے دل میں موجود ہے وہ اس ڈرامے کی تھیم ہے‘ رسول اللہ ﷺ سے لازوال محبت و عقیدت‘ صوفیا کرام کی معاشرے میں اہمیت‘ بحالی عروج کی جدوجہد اور دنیا بھر میں آزادی و عدل کی ترویج ترک قوم کی انفرادیت ہے اور خلافت عثمانیہ کا طرہ امتیاز تھا۔ مسجد آیا صوفیہ میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی تو ترکی کی طرح پاکستان میں بھی کلمہ گو دلوں کی دھڑکن تیز ہوئی‘ دست دعا بلند ہوا اور جب ترک صدر نے مسجد اقصیٰ کی آزادی کی بات کی تو ’’آمین ‘‘کہنے والوں کی تعداد کروڑوں میں تھی۔ طیب اردوان نے ثابت کیا کہ لیڈر جو وعدہ کرتا ہے اسے کبھی بھولتا نہیں۔ نامساعد حالات سے گھبرا کر یو ٹرن نہیں لیتا اور موقع ملتے ہی ایفائے عہد کر گزرتا ہے۔ طیب اردوان نے کامیابی کا یہ سنگ میل اپنے وفادار‘ نظریاتی اور ثابت قدم ساتھیوں کی مدد سے عبور کیا‘ راستے میں آنے والی مشکلات سے گھبرا کر عوام سے منہ موڑا نہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑے سے بھان متی کا کنبہ جوڑا‘ ترکی میں غیر مسلم آبادی ہے اور ریاست ‘ تجارت اور معاشرت میں اس کا اثر و نفوذ بھی۔ آیا صوفیہ کے حوالے سے عدالتی فیصلہ آنے کے بعد مسیحی آبادی میں ارتعاش پیدا ہوا مگر اس کی خوشنودی اور امریکہ و یورپ کے دبائو مدنظر رکھنے کے بجائے ترک صدر نے اپنا انتخابی وعدہ یاد رکھا اور فرمان رسول ﷺ کی پیروی کی کہ کررہ ارض پر جہاں ایک بار سجدہ گاہ بن جائے تاقیامت مسجد ہی رہے گی ‘اس کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی مسلمان کبھی اقتدار و دینوی مفادکے لئے دینی تقاضوں کو پس پشت ڈالتا ہے نہ بت شکنی چھوڑ کر بت گری پیشہ کرتا ہے۔ بیت المال کا پیسہ ایسی عمارتوں کی تعمیر پر ضائع نہیں کرتا جہاں بتوں کی پوجا ہو اور اللہ اکبر کی بجائے صدائے ناقوس گونجے ۔اقبالؔ نے کہا تو قرطبہ کے بارے میں تھا مگر یہ صادق آیا صوفیہ پر بھی آتا ہے۔ ؎ پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں