ملکی معیشت و سالمیت جہاں دیگر مسائل سے دو چار ہے وہاں سیلاب یہ سیلاب سے ہر سال ہونے والی تباہ کاریوں سے بھی دوچار ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح اِمسال بھی سیلاب ملک میں تباہی کا پیغام لے کر آیا اور اس کی تباہ کار یوں سے زرعی فصلیں اور ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا ہے ۔محکمہ موسمیات اور نیشنل ڈیزاسٹر سیل نے متاثرہ اضلاع میں قبل از وقت آگاہی کی بگل بجا دی تھی لیکن افسوس ناک عمل یہ ہے کہ سالانہ بنیاد پر آنے والے سیلاب سے بچائو کیلئے کوئی موثر حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی۔ بلا شبہ قدرتی آفت پر انسان کا اختیار نہیں ،مہذب معاشرے بھی قد رتی آفات کو روکنے میں بے بس ہوتے ہیں مگر تدبیر اور احتیاط سے جانی و مالی نقصان کو حتی الامکان کم کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ جاپان میں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں جب زلزلہ آتا ہے جاپان میں ہزاروں گھر تباہ ہوتے ہیں مگر مرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ترقی پذیر ممالک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں انسان کی غفلت اور لالچ سے قدرتی آفت کی تباہی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ دنیا میں گزشتہ 20 برس میں قدرتی آفات نے 5لاکھ انسانوں کی جان لی۔ اسے پاکستان کا المیہ کہیں، حکومت کی بے حسی یا کرپشن کا شاخسانہ یہاں قدرتی آفت سے ہزاروں لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں لاکھوں گھر تباہ ہو جاتے ہیں مگر حکومت کا کام بس تباہی کا رونا رو کر لوگوں کی مدد کے نام پر عالمی برادری کے ساتھ پاکستانیوں سے عطیات بٹورنا ہی رہ گیا ہے ۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ یہ رقم مستقبل کی پیش بندی اور احتیاطی تدابیر پر خرچ نہیں ہوتی ،ہر سال مون سون سینکڑوں بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے حکومتی اکابرین تباہ حال بستیوں میں فوٹو سیشن کروا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ اسباب جاننے کی کوشش کی جاتی ہے نہ ہی مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کی کوئی تدبیر۔اس سال سیلاب لگ بھگ پورا ملک بہا کر لے گیا خیبر سے کراچی تک بستیاں اجڑ گئیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی میڈیا بریفنگ کے مطابق طوفانی بارشوں اور سیلاب سے 236بچوں سمیت 903افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ایک لاکھ 25ہزار گھرمکمل تباہ جبکہ 2لاکھ 88ہزار مکانوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ 30ہزار کلو میٹر سڑکیں تباہ ہو گئی ہیں حکومت ٹی وی چینلز پر ماتم کناں ہے اور لوگ کھلے آسمان تلے غیبی مدد کے منتظر۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان اور سندھ کے اندرونی علاقوں میں ایک بھی کچا مکان سلامت نہیں بچا۔دیہی علاقوں کے باسیوں کا کل اثاثہ مویشی اور فصلیں ہوتی ہیں سیلاب اور طوفانی بارشوں سے 20لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ جبکہ 5لاکھ مویشی ہلاک ہو گئے ہیں۔ جو غریب سیلاب سے بچ گئے ہیں حکمران ان کو سیلاب کے بعد بھوک اور بیماریوں سے مرنے کے لئے چھوڑ کر سیاسی مخالفین کو زیر کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاستدانوں کی بے حسی کہئے یا پاکستانیوں کے اعمال کا عذاب کہ حکومت سمیت پارلیمنٹ میں موجود سیاسی پارٹیوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جس کی قیادت نے اپنے کارکنوں کو سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے میدان میں اتارا ہو۔سیلاب متاثرین کی مدد کرتا اگر کوئی دکھائی دیتا ہے تو وہ مذہبی جماعتیں ہیں جن کو دہشت گرد یا کالعدم قرار دیا جاتا ہے یا پھر ایسی تنظیمیں جو سیاست سے دور ہیں۔عوام جن کو ووٹ دے کر طاقت کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں متاثرہ علاقوں میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔مسلم لیگ ن کی قیادت پر تو عمران خان دن رات چور چور کا تبرہ کرتے ہیں اور دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ ان کو عوام کی بے حسی دیکھ کر رات بھر نیند نہیں آتی۔ عمران خان کے پاس سیلاب متاثرین کی مدد کے ذریعے پاکستانی سیاست کا چلن بدلنے کا موقع تھا مگر بدقسمتی سے ان کی ترجیح بھی پاکستانیوں کے بجائے پاکستان کا اقتدار ٹھہرا۔ عمران خان بھی حکومت کو ٹکر دینے کے لئے ہر ہفتے کروڑوں روپے خرچ کرکے جلسے اور اپنی ٹائیگر فورس کو حکومت سے مقابلے کے لئے تیار کر رہے ہیں مگر سیلاب متاثرین سے ان کو بھی کوئی سروکار محسوس نہیں ہوتا، اگر ہوتا تو عمران خان تحریک انصاف کے کارکنوں کو ہی اپنی اپنی بساط کے مطابق سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے میدان عمل میں اترنے کی ہدایت کرتے۔ لاکھوں کی تعداد میں ٹائیگرز فورس کا ہر نوجوان اگر ایک ایک متاثرہ گھرانے کی مدد کے اسباب بھی پیدا کرتا تو تحریک انصاف ہی پورے ملک کے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے کافی ہوتی۔ رہی حکومت تو شاید یہ بھی دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہو کہ کوئی ملک قدرتی آفت سے اس قدر تباہ ہو چکا ہو اور اس کا وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ساتھ غیر ملکی دورے پر چلا جائے وہ بھی ملک کے تباہی سے بچے رہنے والے قومی اثاثوں کو رہن رکھ کر 3ارب ڈالر کے معاہدوں کے لئے۔ان حالات میں سیلاب متاثرین کی حالت پر اسرار سیفی کا یہ شعر ہی صادق آتا ہے: کیا کہیں، کس سے کہیں رنجش و آفات کا غم اب سہا جاتا نہیں گردش حالات کا غم موجودہ صورتحال میں حالات کا غم طوفانی بارشوں اور سیلاب کی صورت میں آفت ہے ۔ آفتیں دو طرح کی ہوتی ہیں پہلی قدرتی اور دوسری انسان کی اپنی پیدا کردہ۔ موجودہ آفت میں قدرت سے زیادہ انسان کا عمل دخل بھی ہے۔ہر سال دریا کے راستے آنے والی بستیوں کو سیلاب بہا کر لے جاتا ہے ہر سال انتظامیہ کے سامنے انہیں نشیبی علاقوں میں لوگ پھر آباد ہو جاتے ہیں یہاں تک کے حکومتی اہلکاروں کی ملی بھگت سے دریا کی زمین میں فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔آبادیوں کے گرد حفاظتی بند بنتے بھی ہیں تو ایسے کہ نالہ ڈیک طرح کے حکومت نے گزشتہ برس نالہ ڈیک کے دونوں اطراف سات ارب روپے کی خطیر رقم سے بند باندھا مگر پہلے سیلاب میں ہی تحصیل پسرور 400 دیہات ڈوب گئے۔ انتظامیہ وجوہات کے تعین کے بجائے حکومت سے ایک بار پھر بند کے لئے رقم کا تقاضہ کرے گی جو پھر اگلے سیلاب میں بہہ جائے گا۔ جب تک یہ روش ختم نہیںہوتی، ہر سال مون سون پاکستانیوں کے لئے آسمان سے عذاب لے کر ہی اترتا رہے گا کیونکہ: کیسے ہو رد بلاکیا ہو تباہی سے گریز وہ جو ہیں باعث آفات مرے اپنے ہیں