محفل سے اٹھ نہ جائیں کہیں خامشی کے ساتھ ہم سے نہ کوئی بات کرے بے رخی کے ساتھ اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ یہ احساس کا ردعمل ہے یا پھر کچھ اور! احساس کبھی آنے والی صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کبھی صورت حال کے انجام پر چونکتا ہے۔ میں نے اس احساس فکر کی بنیاد داخل سے اٹھائی کہ خارج میں مجھے جانا ہے اور آپ کو اس بحث میں شریک کرنا ہے۔ احساس کو چھونا کیا ہوتا ہے، احساس کا لمس روح کو کیسے سرشار کرتا ہے۔ اس موضوع کا خیال مجھے ایک چھوٹی سی خبر پڑھ کر آیا۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ انسانی جذبات محسوس کرنے والا روبوٹ بین الاقوامی خلائی سٹیشن روانہ کیا گیا ہے اور یہ کارنامہ واشنگٹن والوں نے سرانجام دیا ہے۔ میں کتنی دیر تک سوچتا رہا کہ انسان نے آخر سوچ لیا کہ احساس کا کام اب روبوٹ ہی سے لیا جائے کہ انسانوں میں سے یہ وصف کب کا عنقا ہو چکا۔ آپ واشنگٹن والوں ہی کو دیکھیں کہ انہوں نے کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ گنوانا چاہوں تو اسی پر کالم تمام ہو جائے۔ ان کے احساس کو ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ عراق کی بربادی میں بھی ان کی مکاری ‘ جھوٹ اور ظلم کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ سینکڑوں مثالیں ہیں کہ بے گناہ لوگوں کو بچوں سمیت ڈیزی کٹر بموں سے اڑا دیا گیا۔ کالوں کو کمبل دیے تو اس میں چیچک کے جراثیم چھوڑ دے۔ آپ کو ان میں احساس کی رمق تک محسوس نہیں ہو گی۔ اس مشینی دور میں تو انسان کا احساس خود بری طرح متاثر ہوا کہ اقبال نے بس کہہ دیا احساس مروت کو کچل دیتے ہیں۔ آلات ’’یعنی‘‘ ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت ویسے تو : درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں احساس سے بڑی دولت کوئی نہیں اور اگر ہر کسی کے پاس یہ دولت ہو تو دنیا جنت بن جائے۔ ویسے تو یہ احساس مانپنے والا روبوٹ حکومت کے پاس ہونا چاہیے بلکہ ایک روبوٹ احساس دلانے والا بھی ہو کہ زیادہ مفید رہے گا۔ خدشہ مگر یہ ہے سیاستدانوں پر تو وہ بھی کارگر نہیں ہو گا کہ احساس تو دل میں پیدا کیا جا سکتا ہے جبکہ سیاست کے سینے میں تو دل ہوتا ہی نہیں اور آنکھ میں حیا بھی ناپید ہوتی ہے۔ وہ محسوسات کی دنیا کا باشندہ ہی نہیں ہوتے ویسے تو جب سے دنیا امریکنائز Americanise ہوئی ہے تو وہ جو تھوڑا بہت احساس تھا وہ بھی جاتا رہا ہے۔ ایک احساس کا تعلق آپ کی محرومی سے بھی ہے: محرومیوں کا اور بھی احساس یوں ہوا چاہا تھا جو بھی تیرے سوا مجھ کو مل گیا پھر مجھے فراز یاد آتے ہیں کہ رقیبوں اور دشمنوں کے احساس کی بات کرتے ہیں تو ایک اور پہلو احساس کا نکلتا ہے: اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ ویسے دیکھا جائے تو اکثر کو اپنا احساس ہوتا ہے دوسروں کا نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اسی احساس کے زیر اثر مافیاز بنتے ہیں۔ کہ اپنا تحفظ انہیں اپنے جتھے کے اندر نظر آتا ہے۔ حالیہ وکیلوں کی دل کے ہسپتال پر یلغار اس کی شاندار مثال ہے۔ ڈاکٹرز ‘ وکلاء ججز اور دوسری کمیونٹیز بھی پیچھے نہیں ہیں۔ اس میں ایک بدترین مثال افتخار محمد چودھری کی ہے کہ اپنے بیٹے ارسلان کے معاملہ پر وہ جس حد تک گئے کہ شرم آتی ہے بات کرتے ہوئے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ہر جگہ اس روبوٹ کی ضرورت ہے جو احساس دلائے یا احساس ماپے۔ آپ بھارت کے مودی کو دیکھیں کہ ہندوتا کے جنون میں اس کا انسانی احساس تقریباً ختم ہو چکا۔ کشمیر میں اس نے جو ظلم اور جبر روا رکھا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ مسلم دشمنی پر وہ تمام حدود پار کر چکا۔ شہریت کے معاملے میں وہ بری طرح اندھا ہو چکا اور بین الاقوامی قوانین کو بھی روند ڈالا۔ دوسری سطح پر عالمی بے حسی دیکھیں کہ وہ اپنے اپنے مفادات کے لئے خاموش ہیں اور کھلے ظلم اور جانبداری پر اگر بولتے بھی ہیں تو انہیں اپنی آواز خود بھی سنائی نہیں دیتی۔ یہ بھی چھوڑیے آپ سعودی عرب کو دیکھیے کہ جس کے حکمرانوں کو اسلامی دنیا کی رہنمائی کرنا چاہیے تھی وہ امریکہ کے زیر اثر احساس سے یکسر عاری ہو چکے۔کشمیر کے لئے ان کی آواز تک نہیں نکلتی۔ وہ اپنی شناخت کی بازگشت کے لئے مہاتیر اور اردوان کے لئے نہ صرف کھڑا ہونے کے لئے تیار نہیں بلکہ مخالفت پر اترآئے ہیں۔ کس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ ہم عجیب مقام پر کھڑے ہیں کہ انور ملک کا شعر یاد آیا ہے: جب بھی آتا ہے مرے جی میں رہائی کا خیال وہ مرے پائوں کی زنجیر ہلا دیتا ہے سب سے خوفناک صورت حال وہ ہے جو احساس ندامت بھی نہ رہے۔ ہمارے تبدیلی ماسٹر اس کی بہترین مثال ہیں کہ ان کی ہر بات کے دو ورشن ہر وقت میڈیا پر موجود رہتے ہیں۔ اپنی ہر بات کو رد کرنا اپنے ہر دعوے کے خلاف کرنا اور ہر فیصلے پر یو ٹرن ۔ ایک شخصیت کے دو متضاد رخ۔ مگر قسمت ایسی پائی کہ ان کے ماننے والے ہر چیز کا جواز ڈھونڈ لاتے ہیں آپ یہ احساس کہاں تلاش کریں گے۔ یہ بات یعنی احساس کی اب صرف شعروں میں مل سکتی: اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی دیکھیے روبوٹ نے کیا کچھ لکھنے پر مجبور کر دیا حالانکہ روبوٹ بیچارا تو کچھ بھی نہیں ایک بے جان شے ہے اور وہ بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں جو کچھ حضرت انسان اس میں فیڈ کرے گا وہی روبوٹ کے عمل میں آئے گا۔ آپ خود ہی سوچیے کہ انسان روبوٹ میں کس قسم کا احساس ڈال سکتا ہے۔ وہ اس میں دل تو ڈال نہیں سکتا۔ محسوسات کا۔ تیسری سطح ہی تو سانس کی ہے کہ چیزیں عالم محسوسات میں سمجھی جاتی ہیں۔ بہرحال آپ کا عمل کسی احساس کے تابع ہو تو وہ چھپ نہیں سکتا: اڑتا رہا دیر تک میں پنچھیوں کے ساتھ اے سعدؔمجھ سے جال تک بچھایا نہیں گیا